Maktaba Wahhabi

75 - 131
دن‘‘ کرسمس کے پا ک دن کو شراب نوشیوں اور بدمستیوں کے لیے وقف کر دینا،یہ ’’نوروز‘‘ کے شاہانہ جلسے۔یہ سب مثالیں اور نظیریں اگر دین کو لہو ولعب او رمشغلہ تفریح بنالینے کی نہیں تو اور کیا ہیں ؟[ تفسیر ماجدی :ص ۲۹۵ ] لہٰذا جنھوں نے بھی دین کو لہو ولعب بنایاوہ ناچ گانے اور موسیقی کے بغیر اسی کی تکمیل نہیں کر پائے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ قرآن میں کسی دوسرے مقام پر بھی لہو کے مفہوم میں غنا اور موسیقی نہیں محض خود فریبی ہے۔ غامدی صاحب دراصل لغوی اعتبار سے ’’لہؤ‘ کے معنی ’’غافل کر دینا‘‘ کرتے ہیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیاق کلام اور واقعاتی اعتبار سے جو سمجھا،اسے درست نہیں سمجھتے۔ یہ وہی فکر ی کجی ہے جس میں مبتدعین اور متجددین بلکہ محرفین مبتلا رہے۔ تفسیر قرآن میں لغت عرب کی اہمیت کا انکار نہیں مگر حدیث پاک اور صحابہ کرام کے تفسیری بیان سے صرف نظر کرکے جنھوں نے لغت عرب کو اپنا مرجع بنایا انھوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی اور قرآن پاک کو بازیچہ اطفال بنایا۔لغت سے الفاظ کے لغوی معنی تو معلوم کیے جا سکتے ہیں مگر اس کے شرعی مفہوم کی تعیین احادیث و آثار ہی سے متعین کی جاسکتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ازمنہ قدیمہ کے معتزلین ہوں یا سرسید اور غلام احمد پرویز انھوں نے لغت کے سہارے قرآن کی تفسیر نہیں تحریف کی ہے۔ ’’لہوالحدیث‘‘ کے صرف لغوی معنی پر قناعت کرنا اور غنا او ر موسیقی کو اس سے خارج سمجھنا اسی فکری کجی کا نتیجہ ہے۔سابقہ دور میں یہ جسارت کوئی اور تو نہ کر سکا جیسا کہ ہم باحوالہ عرض کر آئے ہیں مگر غامدی صاحب اپنے تجدد کے زعم میں اس کمی کا ازالہ فرما رہے ہیں۔ موسیقی مباح نہیں پھر اس بات سے تو کسی کو مفر نہیں کہ قرآن پاک میں لہو،’’لہوو لعب‘‘ کا استعمال بطور مذمت ہوا ہے اس لیے اصلاً اس کے تمام مصدقات،قابل مذمت ہیں،باعث مدح نہیں۔الا یہ کہ کسی دلیل صریح سے اس کا استثنیٰ ثابت ہو یا وہ حقیقۃً لہو نہ ہو،’’لہؤ‘‘ کے معنی آپ’’گمراہ کن باتیں ‘‘ کریں غافل کر دینے والا عمل کریں،داستان گوئی،بیہودہ ناول کریں یا معروف غنا اور موسیقی یہ بہرنوع باعث مذمت ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ:
Flag Counter