یہ ذرائع اگر لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لیے اختیار کیے جائیں تو فی نفسہٖ مباح ہونے کے باوجود اپنے غلط استعمال کی وجہ سے تشنیع قرار پائیں گے۔[ اشراق:ص ۶۲ ] جب لہو ولعب کا استعمال قرآن میں بطور ’’مباح ‘‘ استعمال ہی نہیں ہوا تو پھر ان امور کو ’’فی نفسہٖ مباح‘‘ قرار دینا چہ معنی دارد؟اس کا ’’غلط استعمال‘‘ اگر اﷲ تعالیٰ کے راستے سے ہٹانے اور آیات الہٰی کا مذاق اڑانے کے لیے ہے تو یہ کفر ہے۔ اور اگر یہ ’’غلط استعمال‘‘ سبب بنتا ہے نمازو عبادت کے ضائع کرنے کا،منہیات اور فسق و فجور کے ارتکاب کا تو یہ حرام اور مکروہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔ اور یہ کسے معلوم نہیں کہ غنا اور موسیقی مقصد حیات نہیں۔ مقصد حیات عبادت و اطاعت ہے۔ اس کے مطابق جو کام ہے وہ مفید ہے۔اس کے مقابلے میں دوسرا غیر مفید اور مضر ہے۔ اس اعتبار سے بھی معروف غنا و موسیقی،اگرچہ اس میں معصیت کا کوئی پہلو نہ ہو،بہرحال مضر ہی قرار پاتی ہے،مباح نہیں۔ جیسا کہ غامدی صاحب باور کرانا چاہتے ہیں۔ امام قاسم رحمہ اللہ بن محمد جن کا شمار فقہاء سبعہ مدینہ طیبہ میں ہوتا ہے ان سے کسی نے غنا کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:میں تجھے اس سے منع کرتا ہوں اوراسے مکروہ سمجھتا ہوں۔ سائل نے کہا کیا وہ حرام ہے ؟ توانھوں نے فرمایا: اے بھتیجے! جب اﷲ تعالیٰ حق اور باطل کے مابین تمیز کرے گا تو بتلاؤ غنا کو کس پلڑے میں شمارکرے گا؟[ الدر المنثور:۵/۱۵۹]ظاہر ہے کہ غنا وموسیقی حق نہیں،بلکہ باطل ہے۔ اسی طرف امام قاسم بن محمد نے بڑی حکمت سے اشارہ فرمایا۔ مگر شاید غامدی صاحب اسے ’’حق ‘‘ کے پلڑے میں رکھتے ہیں۔ اسے لیے اسے علی الاقل ’’ مباح‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ہماری ان گزارشات سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ’’لہو الحدیث‘‘ کے لغوی معنی گو عام ہیں مگراس سے حقیقۃً مراد موسیقی اور غنا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اکثر تابعین عظام رحمہ اللہ نے فرمایاہے۔ سیاق کلام اسی کا متقاضی ہے اور بعض روایات کے مطابق اس کا شان نزول بھی اسی معنی کا مؤید ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کو اولیٰ قرار دیا ہے۔ اور اس آیت سے فقہائے کرام نے موسیقی کی حرمت پر استدلال کیا ہے۔ بیہقی |