بارے میں آپ کا ارشاد مدینہ طیبہ میں ہے بلکہ جامع ترمذی[۴/۲۱ مع التحفہ] وغیرہ میں سند صحیح سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام اس لیے نہ آئے کہ گھر میں کتے کا ایک بچہ تھا جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ کا تھا۔ کَانَ ذٰلِکَ الْکَلْبُ جِرْوًا لِلْحُسَیْنِ اَوِ الْحَسَنِ لہٰذا یہ کہنا کہ ’’حج وعمرہ کے مراسم عبودیت میں خلل انداز ہونا‘‘ بھی ان کا باعث ہو سکتا ہے،محض ایک وسوسہ ہے،جس کی کوئی دلیل نہیں۔ ایک غلط دعویٰ اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’بعض روایتوں میں کتوں کو مارنے کا حکم بھی غالباً اسی پہلو سے ہے۔‘‘ [اشراق :ص۸۲]کہ ان کی آوازیں دشمنوں کو خبردار کر دیتی تھیں۔ ایسی بے تکی بات کوئی بے خبر اور حدیث سے بے بہرہ کہتا تو ہم اسے معذور سمجھتے مگر افسوس ہے کہ یہ بات وہ صاحب کہہ رہے ہیں جنھیں اپنے علم و دانش پر ناز ہے۔ حالانکہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ جب جبریل علیہ السلام گھر میں وعدہ کے مطابق نہ آئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اس گھر میں نہیں آتے جس میں کتا ہو۔ فَاَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ فَاَمَرَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ حَتّٰی اَنَّہ‘ یَأمُرُبِقَتْلِ کَلْبِ الْحَآئِطِ الصَّغِیْرِ وَیَتْرُکَ کَلْبَ الْحَآئِطِ الْکَبِیْرِ۔[مسلم :۲/۱۹۹وغیرہ] تو اگلے روز رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا یہاں تک کہ آپ نے چھوٹے باغ کی نگرانی کرنے والے کتوں کو بھی مارنے کا حکم دیا،بڑے باغ اور کھیتی کے کتوں کو نظر انداز فرمایا۔ اس لیے کتوں کو مارنے کا حکم تو اس واقعہ کے پس منظر میں تھا کہ جبریل علیہ السلام کتے کی بنا پر گھر نہیں آئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اس گھر میں نہیں آتے جس میں کتا ہو۔ یہی بات علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اسباب ورود الحدیث [ص :۱۹۹] میں بیان کی ہے۔ اس کے برعکس جو دعویٰ غامدی صاحب نے اپنے’’علم و فضل‘‘ کے باوصف کیا محض جھوٹ پر مبنی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ ہم یہاں اس حوالے سے مزید تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ صرف یہ عرض |