لیے جو حیلہ اختیار کیا وہ یہی موسیقی وغنا تھا۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا،لہو الحدیث کے معنی بھی انھوں نے غنا کیا۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ یہاں غنا مراد نہیں لیا جاسکتا۔ ان کی قرآن فہمی کا شاہکار ہے۔ تیسری آیت موسیقی کی شناعت کے لیے علمائے کرام نے حسب ذیل آیت سے بھی استدلال کیا ہے: ﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْھُمْ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا﴾[بنی اسرائیل:۶۴ ] اور ان میں سے جن پر تیرا بس چلے ان کو اپنی صوت سے پھسلالے،ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا،مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھی بن جا اور ان سے وعدہ کر لے اور شیطان ان سے محض دھوکے ہی کے وعدے کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں بنی نوع انسان کو گمراہ کرنے کے حوالے سے فرمایا گیا ہے کہ ان کو اپنی ’’صوت‘‘ سے پھسلا لے۔ صوت عربی زبان کا معروف لفظ ہے،جس کے معنی آواز ہے۔ اس آواز سے کیا مراد ہے ؟ علامہ قرطبی فرماتے ہیں : و صوتہ کل داع یدعوا الی معصیۃ اللّٰہ تعالٰی عن ابن عباس و مجاھد الغناء والمزامیر واللھو،الضحاک : صوت المزمار۔ [الجامع لاحکام القرآن :۱۰/۲۸۸ ] شیطان کی آواز ہر اس داعی کی آواز ہے جو اﷲ کی نافرمانی کی طرف پکارے،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ نے اس سے مراد غنا،مزامیر اور کھیل تماشہ لیا ہے اور ضحاک رحمہ اللہ اس کا مفہوم مزمار کی آواز بیان کرتے ہیں۔ اس آیت سے انھوں نے غنا وغیرہ کی حرمت پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : فی الآیۃ ما یدل علی تحریم المزامیر والغناء واللھو لقولہ ﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ ﴾،علی قول مجاھد،و ما کان من |