غنا مراد لیتے ہیں اور اس سے غنا کی ممانعت پر دلیل لاتے ہیں۔ بلکہ مولانا مودودی رحمہ اللہ مرحوم نے تواس کے معنی ہی یہ کیے ہیں : اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم اظہار تعجب کرتے ہو ؟ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور گا بجا کر انھیں ٹالتے ہو۔[تفہیم القران:۵/۲۲۳ ] اور حاشیہ میں سامدون کے بار ے میں لکھتے ہیں : اصل میں لفظ سامدون استعمال ہو اہے جس کے دو معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما،عکرمہ رحمہ اللہ اور ابوعبیدہ نحوی کا قول ہے کہ یمنی زبان میں سمود کے معنی گانے بجانے کے ہیں اور آیت کا اشارہ اسی طرف ہے کہ کفار مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کر دیتے تھے۔الخ[تفہیم القران:۵/۲۲۴ ] اس کے بعد مولانا موصوف نے دوسرا معنی تکبر نقل کیا ہے مگر غور فرمایا آپ نے کہ دونوں میں جو مفہوم ان کے نزدیک راجح ہے،وہ گانا بجانا ہے۔اول طور پر اسی کو انھوں نے ذکر کیا اور ترجمہ میں بھی انھوں نے اسی کو اختیار کیا اور معمولی عقل وفکر کا حامل انسان بھی سمجھ جاتا ہے کہ یہ تفسیر وتفہیم سورہ ء لقمان میں ’’لہو الحدیث‘‘ کے معنی کے عین موافق ہے۔ وہاں بھی قرآن کے مقابلے میں غنا او رلہو لعب کا ذکر ہے اور یہاں بھی۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ یہاں غنا مراد نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ یہ محض اس لیے کہ اس سے تو غنا کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے اگراسے تسلیم کر لیا جائے تو ہماری ساری کارروائی کے تاروپود بکھر جائیں گے۔ غامدی صاحب بڑی ہوشیاری سے فرماتے ہیں :’’یہاں اس سے مراد غافل ہو جانا اور قرآن سے بے اعتنائی برتنا ہے۔‘‘ [ اشراق:ص ۶۵ ]مگر سوال یہ ہے کہ مشرکین مکہ کی ’’غفلت‘‘ کا باعث اور سبب کیا تھا؟ کس چیز میں مبتلا ہو کر انھوں نے قرآن پاک سے بے اعتنائی اختیار کی؟ متکبر،بے اعتنا نہیں ہوتا،معاند ہوتا ہے۔ اور معاند مخالفت کے نت نئے بہانے اور حیلے تراشتا ہے۔وہ غافل نہیں ہوتا۔ ان معاندین نے قرآن سے بے اعتنائی کے |