Maktaba Wahhabi

131 - 131
راستہ چھوڑا اور بانسری کی آواز سننے پر کانوں کو بند کر لیا تو یہ اس عمل سے شدید کراہت اور اس سے انتہائی نفرت کا اظہار ہے۔ اور آپ ا کی اسی نفرت وکراہت سے اہل علم نے اس کے حرام ہونے پر استدلال کیا ہے۔ غامدی صاحب کی طبع نازک پر حرمت کا لفظ گراں گزرتا ہے تواسے کم از کم مکروہ ہی تصور کرلیں اور نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیروی میں نفرت کا تو اظہار کریں،اسے ’’مظاہر فطرت‘‘ میں سے تو شمار نہ کریں۔ قارئین کرام! یہ ہیں وہ صحیح احادیث جن سے غنا اور آلات ملاہی کی حرمت و شناعت نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ احادیث پاک کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرز عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ: حضرت عبداﷲ بن مسعو د رضی اللہ عنہما کا فرمان حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: اَلْغِنآئُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ۔[بیہقی:۱۰/۲۲۳] ’’کہ غنا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ غنا دل میں ا س طرح نفاق پید اکرتا ہے جیسے پانی کھیتی اگاتا ہے۔‘‘اﷲ کا ذکر دل میں ایسے ہی ایمان پید اکرتا ہے جیسے پانی کھیتی اگاتا ہے۔ یہ اثر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مختلف اسانید سے منقول ہے۔ اسی بنا پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے[اغاثۃ اللہفان : ۱/۲۶۶] میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور قبل ازیں ’’لہو الحدیث‘‘ کی تفسیر میں ان کا قول صحیح سند سے ہم نقل کر آئے ہیں کہ اس سے مراد غنا ہے۔ جس سے مزید اس اثر کی تائید ہو جاتی ہے۔ یہی الفاظ ابوداو،د [ ج ۴ ص۴۳۵] میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی مروی ہیں۔ مگر سنداً یہ روایت کمزور ہے۔ کیونکہ سلام بن مسکین اسے ’’عن شیخ‘‘ کے لفظ سے بیان کرتے ہیں اور وہ مبہم ہے۔ اس لیے مجہول ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اسی بنا پر لکھتے ہیں : فی رفعہ نظر والموقوف اصح۔[ اغاثۃ ] اس کا مرفوع ہونا محل نظر ہے اور موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔ مگر علامہ آلوسی نے کہا ہے:
Flag Counter