ایک لایعنی تاویل ان روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے،جس طرح گھر یا قافلہ میں ’’جرس ‘‘فرشتوں کی ہمرائی سے محرومی کا باعث ہے۔ اسی طرح کتے کی موجودگی بھی فرشتوں کے لیے ناگواری کا باعث ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی ممانعت فرمائی۔ اس کے برعکس غامدی صاحب کی یہ تاویل کہ: کتوں کے شوروغل اور جانورں کے گلے کی گھنٹیوں کی آوازیں دشمن کو باخبر کرنے کی صورت پیدا کر سکتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے کتوں کو ہمراہ نہ رکھنے اور گھنٹیوں کو اتارنے کا حکم فرمایا۔[اشراق :ص ۸۲] ایک بالکل لایعنی تاویل ہے۔ جب گھروں میں بھی اس کی ممانعت ہے اور ان کی موجودگی میں فرشے گھر میں داخل نہیں ہوتے،تو وہاں دشمن کو باخبر کرنے کا کونسا داعیہ ہے؟ حضرت سالم رحمہ اللہ تشریف فرما تھے کہ ام البنین کا قافلہ ان کے پاس سے گزرا،جن کے ساتھ گھنٹیاں بج رہی تھیں،حضرت سالم رحمہ اللہ نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا میرے والد عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتلایا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس قافلے کے ہمرا ہی نہیں بنتے جہاں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔[نسائی،احمد،وغیرہ الترغیب:۴/۷۷] غور فرمائیے !ام البنین کا یہ قافلہ کیا جہاد کے لیے جا رہا تھا؟ او ر کیا انھوں نے اپنے دشمنوں کو خبردار کرنے کے لیے انھیں باندھ رکھا تھا؟ ’’ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا‘‘اور’’لاَ نَدْخُلُ بَیْتًا‘‘ کے الفاظ کیا اس تاویل کی اجازت دیتے ہیں ؟ہرگز نہیں۔ ایک اور تاویل اسی طرح یہ کہنا کہ ’’گھنٹی اور کتے کے بارے میں یہ حکم حدود حرم سے متعلق ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ گھنٹیوں اور کتوں کی آوازیں حج وعمرہ کے مراسم عبودیت میں خلل انداز ہو سکتی ہیں۔ [اشراق :ص ۸۳]یہ بھی محض وسوسہ اور دل کی تشفی کا ایک ناکام بہانہ ہے۔ کتوں کے |