اور حضرت عبد رضی اللہ عنہ اﷲ بن عمرو کی اس روایت میں السنن الکبریٰ للبیہقی کے الفاظ ہیں۔ اِنَّ رَبِّیْ حَرَّمَ عَلَیَّ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَۃَ وَالْقِنِیْنَ،وَالْکُوْبَۃُ الْطَبْلُ۔ [ بیھقی:۱/۲۲۲] اس روایت میں بھی الکوبۃ کی تعبیر راوی حدیث کی ہے۔ گویا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں کی روایت میں ’’الکوبۃ‘‘ کی تعبیر راوی نے طبل سے کی ہے۔ علامہ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الکوبۃ یفسر بالطبل و یقال ھو النرد و یدخل فی معناہ کل وتر و مزھر و نحو ذلک من الملاھی والغناء۔[ معالم السنن:۵/۲۶۹ مع مختصر المنذری] ’’الکوبۃ کی تفسیر طبل سے کی گئی ہے،اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نرد ہے اور اس کے مفہوم میں وتر،باجے اور اس جیسے تمام آلات ملاہی اور گانے بجانے شامل ہیں۔ ‘‘ ’’الکوبۃ‘‘ کی یہی تعبیر عموماً اہل لغت نے کی ہے کہ اس میں طبل،نرد،شطرنج،بربط،ڈگڈگی شامل ہے۔[ تاج :۱/۴۶۴،لسان العرب:۲/۲۲۵،الصحاح:۱/۲۱۵ وغیرہ] بلکہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کل شیء یکب علیہ کہ الکوبہ ہر اس کھیل تماشے کو کہتے ہیں جس میں انسان ہمہ تن مصروف ہو جائے۔[ الاشربۃ:ص ۸۴ رقم :۲۱۴] غامدی صاحب کا ایک غلط دعویٰ جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ’’الکوبہ ‘‘ کا اطلاق اپنے وسیع تر مفہوم میں تمام آلات ملاہی اور کھیل تماشے کو شامل ہیں۔ خواہ وہ طبل ہو،شطرنج ہو،ڈگڈی ہو،بربط ہو یا نرد ہو۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ کوبہ کا لفظ طبل اور نرد کے دو معنوں کو مستعمل ہے۔‘‘ اور بعض روایتوں میں بھی راویوں نے کوبہ کے یہ دونوں معنی نقل کیے ہیں۔ چنانچہ بیہقی [ ص ۲۲۳ ج :۱۰ ] کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’جہاں تک لفظ کوبہ کا تعلق ہے جس کا ذکر پیچھے مرفوع روایت میں ہوا ہے تواس کے بارے میں محمد بن کثیر نے مجھے بتایا ہے کہ کوبہ کو اہل |