Maktaba Wahhabi

125 - 131
کے لیے سب سے مشکل ہوتی تھی۔ اس لیے نزول وحی کے وقت ’’ مثل صلصلۃ الجرس‘‘ سے جرس کو جائز قرار دینا اور اس کے لیے دوراز کار تاویلات کا سہارالینا بہر آئینہ غلط ہے۔ چھٹی حدیث حضرت نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے راہ چلتے ہوئے بانسری کی آواز سنی جسے چرواہا بجا رہا تھا توانھوں نے انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور سواری کو اس راستے سے ہٹا دیا(دوسرا راستہ اختیارکیا) پھر انھوں نے مجھے فرمایا : اے نافع رحمہ اللہ ! تم آواز سن رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ اسی طرح چلتے رہے تاآنکہ میں نے کہا اب آواز نہیں آ رہی تو آپ نے انگلیاں کانوں سے نکال لیں اور سواری کو پھر اسی راہ پے لے گئے اور فرمایا: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَ زَمَّارَۃَ رَاعٍ فَصَنَعَ مِثْلَ ھٰذَا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو دیکھا،آپ نے چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو آپ نے اسی طرح کیا جس طرح میں نے کیا ہے۔ یہ روایت مسند امام احمد [ج۲ص ۸،۳۸]،ابوداؤد [ج۴ ص ۴۳۴]،بیہقی[ج۱۰ ص ۲۲۲]،صحیح ابن حبان الموارد [رقم:۲۰۱۳] وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ علامہ شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے تعلیق المسند[رقم:۴۵۳۵]میں اس کی سند کو صحیح کہا۔ حافظ ابوالفضل محمد بن ناصر،علامہ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ الزواجر [ج۲ ص ۳۴۳ ]،تحریم آلات الطرب [ص:۱۱۶] وغیرہ۔ البتہ امام ابوداؤد نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ مگر شارح سنن ابی داو،د فرماتے ہیں : لا یعلم وجہ النکارۃ فان ھذا الحدیث رواتہ کلھم ثقات و لیس بمخالف لروایۃ اوثق الناس۔ [العون:۴/۴۳۴] ’’اس کے منکر ہونے کا کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا،کیونکہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں اور یہ ان سے زیادہ ثقہ کے بھی مخالف نہیں ‘‘بلکہ امام نافع رحمہ اللہ کے علاوہ اس حدیث کی سند میں کہیں تفرد بھی نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ابوداؤد کی سند حسب ذیل ہے۔
Flag Counter