ساتھ سنائی دیتی،انسانی کلام کی طرح ابتدا،وقفہ اور تخاطب کا پہلو اس میں نہیں ہوتاتھا۔ لوہے کی زنجیر کی جس طرح جھنکار مسلسل ہوتی ہے۔ یہی کیفیت بسا اوقات وحی کی ہوتی تھی۔ اور جب یہ آواز مکمل ہو جاتی تو جو کچھ کہا گیا ہوتا وہ سب کا سب آ پ کے قلب مبارک میں محفوظ ہو جاتا۔ فَیُفْصَمُ عَنِّیْ وَ قَدْ وَعَیْتُ محض گھنٹیاں نہیں بجتی تھیں ورنہ اس کے یاد ہونے کے کیا معنی ؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی اشکال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : والحاصل ان الصوت لہ جھتان جھۃ قوۃ وجھۃ طنین فمن حیث القوۃ وقع التشبیہ بہ و من حیث الطرب وقع التنفیر عنہ و علل بکونہ مزمار الشیطان۔ [فتح الباری:۱/۲۰[ خلاصہ کلام یہ کہ آواز کے دو پہلو ہیں ایک اس کی قوت و شدت کا اور دوسرا بھنبھنانے اور جھنکار کا۔ قوت و شدت کی بنا پریہ تشبیہ ہے اور کھیل تماشے کے طور پر اس سے نفرت دلائی گئی اور اس کی علت یہ بتلائی گئی کہ یہ شیطانی ساز ہے۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : والصلصلۃ صوت وقوع الحدید بعضہ علی بعض ثم اطلق علی کل صوت لہ طنین ولا یراد انہ تشبیہ محمود بمذموم فان التشبیہ لا یلزم فیہ التساوی من جمیع الوجوہ،بل یکفی اشتراکھما فی صفۃ،و وجہ الشبہ ھھنا ھو تدارک الصوت بدون مبدأ و مقطع۔الخ [فیض الباری:۱/۱۹] ’’صلصلہ اس آواز کو کہتے ہیں جو لوہا ایک دوسرے پر گرنے سے پیدا ہوتی ہے (زنجیر کی آواز کی مانند) پھر اس آواز پر اس کا اطلاق ہونے لگا جس میں جھنکار ہو۔ یہ مراد نہ لی جائے کہ اس سے محمود کی مذموم سے تشبیہ لازم آتی ہے۔کیونکہ تشبیہ میں تمام پہلوؤں سے اپنے مشبہ سے برابری لازم نہیں بلکہ کسی ایک صفت میں اشتراک کافی ہے۔ اور یہاں وجہ تشبیہ آواز کا بلا ابتدا اور وقفہ کے پایا جانا ہے۔ جس طرح زنجیر کے گرنے کی آواز مسلسل اور باہم ملی ہوئی ہوتی ہے۔ اس طرح وحی کی آواز بھی بغیر انقطاع کے بسیط اور مسلسل ہو تی ہے۔‘‘ اسی بنا پر وحی کی یہ صورت آپ |