Maktaba Wahhabi

123 - 131
ہے۔ اس روایت میں شیطان کا کھانا ہر اس چیز کو قرار دیا گیا ہے جس پر اﷲ کا نام نہ لیا جائے،ہر نشہ آور چیز کو شیطان کا مشروب،مزمار کو شیطان کا کارندہ،جھوٹ کو شیطان کاکلام قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کے شیطانی امور ہونے سے بھی وہی انکار کر سکتا ہے جو ان امور میں خود شیطان کا ہمنوا بنا ہواہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : کل جملۃ منہ لھا شواھد من السنۃ او القرآن اس میں ہر جملہ کے قرآن مجید یا احادیث میں شواہد موجود ہیں۔ [اغاثۃ اللہفان:۱/۲۷۰]اس لیے ہر جر س او ر جلجل بھی شیطانی ساز ہے۔ آج بھی پیشہ ور مغنیہ گھنگرو اور پازیب پہن کر ناچ گانے کا شغل کرتی ہیں۔ ملائکہ کو اس سے نفرت ہے۔ ان معصومین کو جس سے نفرت ہے وہ شیطانی عمل ہی ہو سکتا ہے۔ جرس،ناقوسِ نصاریٰ سے مشابہت کی بنا پر بھی شیطانی عمل ہے۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ اہل کتاب اور اہل کفر کی مشابہت کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ طلوع اور غروب آفتاب کے وقت اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت سے بھی اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس سے سورج پرستوں کی مشابہت ہوتی ہے۔ جب ان اوقات میں ان سے مشابہت کی بنا پر اﷲ کی عبادت ناجائز ہے تو ناقوسِ نصاریٰ سے مشابہت کی بنا پر ’’شیطانی ساز‘‘جائز کیونکر ہو سکتا ہے؟ ایک اشکال اور اس کا جواب جرس کو شیطانی ساز تسلیم نہ کرنے کی ایک دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ نزول قرآن کے وقت نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کو گھنٹیوں کی سی آواز محسوس ہوتی تھی۔ اور یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ نزول قرآن کے موقع پر اﷲ کی طرف سے کسی مکروہ آواز کا تاثرہو۔[اشراق:ص:۸۱] مگر یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ اہل علم اس کا جواب بہت پہلے سے دے چکے ہیں۔ حدیث میں مِثْلَ صَلْصَلَۃِ الْجَرَسِکے الفاظ ہیں کہ وہ گھنٹیوں کی سی آواز ہوتی تھی۔ غامدی صاحب خوب جانتے ہیں کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں کامل اشتراک مقصود نہیں ہوتا بلکہ کسی ایک پہلو میں اشتراک وصف کی بنا پر تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں بھی صَلْصَلَۃِ الْجَرْسِ سے تشبیہ صرف اس کے تسلسل اور تیزی سے ہے کہ جب تک وحی ختم نہ ہوتی آوازمسلسل،حدت اور شدت کے
Flag Counter