سوچنے کی زحمت نہ فرمائی کہ یہ بخاری رحمہ اللہ اور صدقہ بن خالد کے مابین منقطع اور غیر متصل نہیں۔ اگر ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ اور ہشام بن عمار کے مابین یہ حکم لگایا جا سکتا ہے،جیسا کہ ہم نے ا س کے بارے میں ابھی اشارہ کر دیا ہے۔ پھر کیا یہ روایت فی الواقع منقطع ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے سماع کی صراحت کیوں نہیں کی ؟ اس بارے میں ان کا اسلوب کیا ہے ؟ یہ ساری ابحاث طویل الذیل ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن [ج ۵ :ص ۲۷۱،۲۷۲ ]اور اغاثۃ اللہفان [ج ۱ :ص ۲۷۷ ] میں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس پر تفصیلاً بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ روایت متعدد اسانید سے متصل ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق [ج ۵ :ص ۱۹ ] میں اور شیخ البانی نے تحریم آلات الطرب میں ان اسانید کا ذکر کیا ہے اور بتلایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ اس روایت کو امام ابن حبان رحمہ اللہ،حافظ اسماعیلی رحمہ اللہ،حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ،علامہ نووی رحمہ اللہ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ،حافظ ابن قیم رحمہ اللہ،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ،علامہ سخاوی رحمہ اللہ،علامہ ابن الوزیر رحمہ اللہ صنعانی،امیر الصنعانی رحمہ اللہ وغیرہم نے صحیح قرار دیا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی ہوشیاری میں حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی طرف سے اعتراض ذکر کیاجس کے جواب سے علمائے امت بحمداﷲ فارغ ہو چکے ہیں۔ اس لیے ہم بھی بس اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ غامدی صاحب نے کوئی گلفشانی کی ہوتی تو ہم بھی اپنی معروضات پیش کرتے۔ اذ لیس فلیس بلکہ دبی زبان میں انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ،ابن قیم رحمہ اللہ اور علامہ البانی اسے صحیح،متصل قرار دیتے ہیں۔ والحمد اللّٰہ علی ذلک۔ روایت کے استدلالی پہلو پر بحث اس روایت سے چار چیزوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (۱) زنا (۲) شراب (۳) ریشم (۴) ساز۔ اور اسلوب بیان یہ ہے کہ لَیَکُوْنَنَّ مِنْ اُمَّتِیْ اَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو حلال کر لیں گے،گویا یہ اشیاء حرام ہیں۔ مگر امت کے کچھ افراد ان کو حلال بنا لیں گے۔ علامہ علی رحمہ اللہ قاری فرماتے ہیں : |