بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے،رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنی شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اوروہ ان کہانیوں میں کھو جائیں۔[ سیرت ابن ہشام :۱/۳۲۰۔۳۲۱] یہی روایت اسباب نزول میں واحدی نے کلبی اور مقاتل سے نقل کی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر مزید یہ اضافہ کیا ہے کہ نضر نے اس مقصد کے لیے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں،جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی ایک لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سنا تاکہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابرمجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل،تماشوں اور رقص و سرود (کلچر) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انھیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انھیں کس تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ عنہما اور تابعین کے حوالے سے اور ان کی تائید میں حضرت ابوامامہ وغیرہ کی روایات بھی نقل کی ہیں کہ لہوالحدیث سے مراد غنا ہے اور یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جو شخص گانے والی لونڈی کی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روز اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ [ تفہیم القرآن :۴/۸۔۱۰] ہمیں یہاں ان مرفوع روایات یا آیت کے شان نزول کے حوالے سے کچھ عرض نہیں کرنا بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے گو ’’لہو الحدیث ‘‘ کا ترجمہ ’’کلام دلفریب‘‘ کیا مگر وہ بھی اس کا مصداق غنا بلکہ شان نزول ہی موسیقی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اول وہلہ میں غنا اس ’’کلام دلفریب‘‘ میں بہرنوع شامل ہے،ا س سے خارج نہیں۔ تفسیر عثمانی کے نام سے دھوکا اسی طرح انھوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے نام سے بھی اپنے قارئین کو اسی قسم کے دھوکے میں مبتلا کیا ہے کہ انھوں نے بھی ’’اس سے مراد کھیل کی باتیں لیا ہے۔‘‘ [ اشراق:۵۹ ] |