حسن روایت کا انکار کیا جاتا ہے اور پھر اسے تحقیق کا شاہکار باورکرایا جاتا ہے۔ انا اللّٰہ و انا الیہ راجعون۔! ا سی نوعیت کی ایک اور جسارت بالکل اسی نوعیت کا معاملہ ’’ الجرس مزامیر الشیطان‘‘کہ گھنٹی شیطان کا ساز ہے کی تاویل میں روا رکھا گیا ہے۔ جرس کی آواز ناقوس نصاری کے مشابہ ہونے اور ذکر و فکر سے روکنے کا سبب بنتی ہے،ا س لیے اسے شیطان کا سازقرار دیا گیا ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں ’’کہ یہ تو زبان کا عام اسلوب ہے کسی چیز کے اوصاف کو نہایت درجہ بیان کر نے کے لیے تمثیل وتشبیہ اور مبالغے کے اسالیب اختیا رکیے جاتے ہیں۔ جیساکہ طبرانی [رقم:۷۸۳۷] کی روایت میں حمام کو شیطان کا گھر،بازار کو اس کی مجلس،شعر کو اس کا قرآن اور عورتوں کو اس کا جال کہا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے نہ حمام گھر ہے،نہ بازارمجلس ہے،نہ شعرقرآن ہے اور نہ عورتیں جال ہیں۔‘‘ [اشراق:ص ۸۳،۸۴] اولاً : یہ سوال ہے کہ کیا طبرانی کی یہ روایت صحیح اور قابل اعتبار ہے ؟ جب کہ امر واقع یہ ہے کہ اس کا ایک راوی علی بن یزید الالہانی ہے جس کے بارے میں امام الساجی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ،دارقطنی رحمہ اللہ،الازدی رحمہ اللہ،البرقی رحمہ اللہ نے اسے متروک کہا ہے۔ امام یحییٰ بن معین اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی قاسم عن ابی امامہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے تمام احادیث ضعیف ہیں۔ [تہذیب:۷/۳۹۶،۳۹۷]اور یہ روایت بھی قاسم عن ابی امامۃ ہی کی سند سے منقول ہے۔ایسے ضعیف اور متروک راوی کی روایت سے استدلال غامدی صاحب ہی کو زیب دیتا ہے۔ ثانیاً: غامدی صاحب ! احکام و مسائل بیان کرتے ہوئے مبالغہ اور افراط و تفریط کا احتمال دیگر انسانوں میں تو ہوتا ہے،نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے بارے میں اس قسم کا تصور مقام نبوت سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن عاص،رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ارشادات قلمبند کیا کرتے تھے۔ بعض نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم بالآخر انسان ہیں، |