Maktaba Wahhabi

121 - 131
آپ خوشی اور ناراضی میں بھی بات کرتے ہیں اس لیے ہر بات نہ لکھا کرو،انھوں نے اس بات کا اظہار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُکْتُبْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا خَرَجَ مِنْہُ اِلَّا حَقٌّ وَ اَشَارَبِیَدِہٖ اِلٰی فَمِہٖ۔ [مسند احمد:۲/۱۶۲،۱۹۲،ابوداود: ۳۶۴۶،دارمی وغیرہ] لکھا کرو،مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،میرے منہ سے صرف حق نکلتا ہے۔ اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ آپ دینی مسائل و احکام بیان کرتے ہوئے عامۃ الناس کی طرح مبالغہ آرائی کرتے اور افراط و تفریط کاشکار ہو جاتے تھے،مقام نبوت سے ناآشنائی ہی کا نتیجہ ہے اور ایسی جسارت غامدی صاحب اور ان جیسے ’’دانشور‘‘ تو کر سکتے ہیں ایک سچے امتی سے اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ ثالثاً:علیٰ وجہ التسلیم،حضرت امامہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں مبالغہ ہے کہاں ؟ حمام شیطان کا گھر کیوں نہیں ؟ زمانہ جاہلیت میں (بلکہ فائیوسٹار ہوٹلوں میں اب بھی )حمام میں مردو زن ننگے نہاتے تھے۔ حمام کی اسی عریانی اور بے حیائی کا محل ہونے کے ناطے اسے شیطان کا گھر قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اخر مبالغہ کیا ہے ؟ اور رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْحَمَّامُ حَرَامٌ عَلٰی نِسَآئِ اُمَّتِیْ۔ [الحاکم،صحیح الترغیب:۱/۱۸۰]کہ میری امت کی عورتوں پر حمام میں غسل کرنا حرام ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اﷲ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ کرے۔ [نسائی،ترمذی،حاکم،صحیح الترغیب:۱/۱۸۰] مردوں کو بھی چادر کے بغیر اس میں نہانے سے منع فرمایا۔ اور ’’الحمام‘‘ کی اسی شناعت کی بنا پر فرمایا: اَلْاَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدٌ اِلَّا الْمَقْبَرَۃَ وَالْحِمَامُ [ابوداود،ترمذی وغیرہ] قبرستان اور حمام کے علاوہ پوری زمین مسجد ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حمام میں نماز کی ممانعت اس کے شیطانی ٹھکانا ہونے کی بنا پر ہے [المجموع:۳/۱۵۹]اس لیے حمام کو اگر شیطان کا مسکن اور گھر قرار دیا گیا ہے تو یہ ایک حقیقت واقعی کا اظہار ہے۔ اس میں قطعاً مبالغہ
Flag Counter