عرض ہے کہ لہوالحدیث کا ترجمہ ’’کھیل کی باتیں ‘‘ مولانا عثمانی رحمہ اللہ کا نہیں،شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کا ہے۔ جب کہ مولانا عثمانی رحمہ اللہ نے ا س کے حاشیہ میں فرمایا ہے: ’’سعدائے مفلحین کے مقابلے یہ ان اشقیاء کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور ناعاقبت اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ رنگ،کھیل تماشے یادوسری واہیات وخرافات میں مستغفرق ہیں۔ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی ان ہی مشاغل و تفریحات میں لگا کر اﷲ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کر دیں اور دین کی باتوں پر خوب ہنسی اور مذاق اڑائیں۔ حضرت حسن رحمہ اللہ بصری لہوالحدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ لہو الحدیث ہر وہ چیز ہے جو اﷲ کی عبادت اور یاد سے ہٹانے والی ہو۔ مثلاً فضول قصہ گوئی،ہنسی مذاق کی باتیں،واہیات مشغلے اور گانا بجانا وغیرہ،روایات میں ہے کہ نضر بن حارث جو رؤسائے کفار میں تھا بغرض تجارت فارس جاتا تو وہاں سے شاہان عجم کے قصص و تواریخ خرید کر لاتا اور قریش سے کہتا : محمد(صلی اﷲعلیہ وسلم ) تم کو عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں،آؤ،میں تم کو رستم واسفند یار اور شاہان ایران کے قصے سناؤں۔ بعض لوگ ان کو دلچسپ سمجھ کر ادھر متوجہ ہو جاتے۔ نیز اس نے ایک گانے والی لونڈی خرید کی تھی۔ جس کو دیکھتا کہ دل نرم ہوااور اسلام کی طرف جھکا اس کے پاس لے جاتا اور کہہ دیتا کہ اسے کھلا پلا اور گانا سنا۔ پھر اس شخص کو کہتا کہ دیکھ یہ اس سے بہتر ہے جدھرمحمد (صلی اﷲعلیہ وسلم ) بلاتے ہیں کہ نماز پڑھو،روزہ رکھو اور جان مارو۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ شان نزول گو خاص ہو مگر عموم الفاظ کی وجہ سے حکم عام رہے گا۔الخ [تفسیر عثمانی: ص ۵۴۷[ لیجیے جناب! مولانا عثمانی مرحوم نے بھی شان نزول کے اعتبار سے ’’لہوالحدیث‘‘ کے مفہوم میں گانے بجانے کو خاص طو رپر ذکر فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ حکم عام ہے جس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اﷲ تبارک و تعالیٰ کی یاد سے ہٹانے والی ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ کا غلط حوالہ غامدی صاحب نے اس حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا بھی نام لیا کہ انھوں نے بھی اس کا ترجمہ ’’غافل کرنے والا کلام‘‘ کیا ہے۔ مولانا آزاد ہی نہیں ہم عرض کر چکے ہیں کہ ’’لہو الحدیث‘‘ کے لغوی معنی کے اعتبار سے تقریباً سبھی حضرات نے اس کا ترجمہ ’’غافل کرنے والا‘‘ یا |