Maktaba Wahhabi

74 - 131
ہے جس نے اس کے معنی خریدنے کے کیے ہیں۔ وہ خرید جو قیمتاً ہوتی ہے۔ اور یہ اس لیے کہ دونوں میں یہی معنی زیادہ ظاہر ہے۔ اور یہ اس لیے کہ قرآن پاک کے مقابلے میں جو چال انھوں نے چلی وہ یہی غنا و مغنیہ کی تھی جیساکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ و تابعین نے فرمایا ہے۔ مگر یہاں مذمت صرف اسی کی نہیں بلکہ وہ عمل اور کھیل تماشے بھی اس کا مصداق ہے جو یاد الٰہی سے غافل کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ عموماً متاخرین مفسرین نے سمجھا ہے۔ ایک اور بے کار کوشش جناب غامدی صاحب کی سادہ لوح قارئین کوا لجھانے کی یہ کوشش بھی بے کار ہے کہ لہو الحدیث کا استعمال قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے اور ’’کسی ایک جگہ بھی سیاق کلام غنا کو قبول نہیں کرتا۔‘‘تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ سورہ الانعام آیت ۷۹،۳۲،۷۰،الاعراف :۵۰،۵۱،جمعہ: ۹۔۱۱ کی آیات میں لھو،لھواً وَّلَعِبًا،لَعِبٌ وَّلَھْوٌ،کا ترجمہ خود انھوں نے ’’کھیل تماشے‘‘ ہی کیا ہے۔ موسیقی کی یہ معروف محفلیں کیا کھیل تماشے نہیں ؟ اور جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ان لوگوں کو چھوڑ و جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔‘‘یہ کھیل تماشا کیا تھا؟ قرآن پاک ہی نے وضاحت فرما دی ہے: ﴿ وَمَاکَانَ صَلاَتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً ﴾[ الانفال :۳۵] کہ ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس کیا تھی بجز سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹنے کے۔ بتلایا جائے یہ سیٹی اور تالی موسیقی اور غنائِ معروف کا حصہ ہے یا نہیں ؟ مولانا عبدالماجد رحمہ اللہ دریابادی نے کیا خوب فرمایا ہے: ایسے کون لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کو نہیں،خود اپنے دین کو لہو ولعب یا مشغلہء تفریح بنا لیا ہے۔ دین کو بھلا کوئی قوم بھی مشغلہء تفریح بنا سکتی ہے ؟ مفسرین کو اس لیے یہاں دین کو متعین کرنے میں دقت پیش آئی ہے حالانکہ ہندی مسلمان اپنے گردو پیش جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس کے بعد دشواری باقی ہی نہیں رہتی۔یہ ہولی جیسے مقدسی تہوار،کو محض ناچ اور رنگ فحش گوئی وشراب وفحاشی کا جلسہ بنا لینا یہ دیوالی جیسے یادگار تہوار کو جوئے اور روشنی کا مستقل تماشہ بنا لینا یہ دوسہرہ کی حیثیت محض ایک سوانگ اور ناٹک کی رکھ دینا،یہ ’’بڑے
Flag Counter