Maktaba Wahhabi

82 - 131
سے گزر جاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں زُوْر کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی جھوٹ اور باطل کے ہیں۔ا س سے مراد کیا ہے ؟ اس بارے میں حضرات مفسرین کرام کی آراء مختلف ہیں۔ انہی میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے مراد موسیقی ہے۔ یہ قول امام مجاہد رحمہ اللہ،اور محمد رحمہ اللہ بن حنفیہ سے منقول ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی اس سے غنا ہی مراد لیتے ہیں۔[طبری،ابن کثیر،احکام القرآن للجصاص ] عجیب خبط بلاشبہ’’ زُور‘‘ میں غنا کے علاوہ شرک،کذب،باطل اور جھوٹی گواہی بھی شامل ہے اور ان تمام سے اجتناب عبادالرحمن کا وصف ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں : ’’ہمارے نزدیک اس آیت میں ’’زور‘‘ اپنے لغوی مفہوم ہی کے لحاظ سے آیا ہے۔اسے غنا،شرک یا دوسرے مفہوم کا حامل قرار دینا ہرگز موزوں نہیں۔‘‘[اشراق :ص ۷۰ ] حالانکہ کسی کے کہہ دینے سے کوئی چیز ثابت نہیں ہو جاتی۔ کیا کذب،شرک،باطل اور جھوٹی گواہی پر ’’زُور‘‘ کا اطلاق صحیح نہیں ؟ اور کیا قرآن و سنت میں ان امور پر ’’زُور‘‘ کا اطلاق نہیں ہوا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی ذی علم انسان اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا۔ مگر افسوس غامدی صاحب بیک جنبش قلم اس کا انکار کرتے ہیں۔ حیرانی اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اس کے بعد امام طبری رحمہ اللہ کا ایک اقتباس اپنی تائید میں پیش کیا جس کا ترجمہ خود ان کے الفاظ میں یوں ہے: ’’ اس تفصیل کی روشنی میں اس آیت کا صحیح ترین مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ باطل کے کسی کام میں شریک نہیں ہوتے۔ چاہے وہ شرک ہو یا گانا بجانا یا جھوٹ یا اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا کام جس پر زُور کا اطلاق ہوتا ہو۔‘‘[اشراق :ص ۷۰ ] انصاف شرط ہے،کیا امام طبری رحمہ اللہ نے ’’زُور‘‘ میں شرک،گانا بجانا،جھوٹ کو شامل کیا ہے یا نہیں ؟ جب یہ سب زور میں شامل ہیں تو غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’زُور کو غنا،شرک،یا کسی
Flag Counter