Maktaba Wahhabi

83 - 131
دوسرے مفہوم میں شامل قرار دینا ہرگز موزوں نہیں۔‘‘ کس قدر غیر موزوں بات ہے۔ اور امام طبری رحمہ اللہ کی عبارت کو اس کی تائید میں پیش کرنا علم وعقل کی کونسی معراج ہے ؟ لہٰذا جب ’’زُور‘‘ میں غنا بھی شامل ہے تو عبادالرحمن کی شایان شان نہیں کہ وہ موسیقی کی محفلوں کی زینت بنیں۔گویا موسیقی کی یہ مجلسیں عبادالرحمن کی نہیں،عبادالشیطان کی ہیں۔ راقم نے فی الجملہ اس آیت سے بھی موسیقی کی حرمت پر استدلال کیا ہے مگر غامدی صاحب کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ فرماتے ہیں : ’’اگر اس سے غنا ہی کا مفہوم مراد لینے پر اصرار کیا جائے تب بھی سیاق و سباق اور اسلوب بیان اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ انھیں موسیقی کی حرمت کے بارے میں بنیاد بنایا جائے۔‘‘ [اشراق :ص ۷۰ ] حالانکہ الفاظ کی میناکاری سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ’’زُور ‘‘ سے ’’غنا ہی ‘‘ مراد نہیں بلکہ غنا بھی زُور کے مفہوم میں شامل ہے۔ اور سیاق و سباق بھی یہ معنی متعین کرنے میں مانع نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ،حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ،اور امام مجاہد رحمہ اللہ کا اس سے مراد غنا لینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ زُور میں غنا بہرحال شامل ہے بلکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ الغناء من اعظم الزور‘‘ کہ غنا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ [اغاثۃ اللھفان :۱/۲۶۱ ] نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے اشعار کو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے۔ چنانچہ تعوذ کے کلمات میں اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہٖ وَ نَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ میں نفثہ سے مراد ’’ الشعر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ [ابوداؤد :۱/۲۷۹ ] ابوداؤد میں اگرچہ یہ قول راوی حدیث عمرو بن مرۃ کا ہے مگر علامہ البانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ تفسیربسند صحیح مرسلاً مرفوع بھی مروی ہے۔ [صفۃ صلاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم :ص ۷۶،ارواء الغلیل ۲/۵۷] قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے شعراء کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاؤنَ Oاَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ ﴾ [الشعراء :۲۲۴۔۲۲۵ ]
Flag Counter