Maktaba Wahhabi

84 - 131
اور شعراء کی تابعداری گمراہ کرتے ہیں۔ کہا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ ہروادی میں بھٹکتے ہیں۔ ہر وادی میں بھٹکنے سے مراد ہی یہ ہے کہ وہ سچ جھوٹ کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کے استاد محترم لکھتے ہیں : ان شاعروں کی شاعری کا کوئی معین ہدف نہیں جو واردہ دل پر گزر گیا،اگراس کو ادا کرنے کے لیے ان کو کوئی اچھوتا اسلوب ہاتھ آگیا تواس کو شعر کے قالب میں ڈھال دیں گے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی،روحانی ہے یا نفسانی،اس سے خیر کی تحریک ہوگی یا شر کی،ان کے اشعار پڑھیے تو ایک شعر سے معلوم ہوگا کہ ولی ہیں،دوسرے شعر سے معلوم ہوگا کہ شیطان ہیں۔ ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی دونوں کی باتیں بے تکلف کہتے ہیں۔ اور چونکہ اچھوتے او رمؤثر اسلوب میں کہتے ہیں،اس وجہ سے پڑھنے والے دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن نفس کو زیادہ مرغوب چونکہ بدی کی باتیں ہیں اس وجہ سے اس کے نقوش تو دلوں پر قائم رہ جاتے ہیں۔ نیکی کا اثرغائب ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح اگر ان کے کلام میں کچھ افادیت ہوتی بھی ہے تو وہ ان کے تضاد فکر میں غائب ہو جاتی ہے۔ جھاڑ جھنگاڑ کے جنگل میں اگر کچھ صالح پودے بھی لگا دیے جائیں تو وہ مثمر نہیں ہوتے۔ [تدبر القرآن :۵/۵۶۷۔۵۶۸ ] انصاف کی بات کہیے کہ اس ’’جھاڑ جھنگاڑ کے جنگل‘‘ کو ’’زُور‘‘(جھوٹ) نہیں کہیں گے تو او رکیا کہیں گے؟ اس لیے ’’زُور‘‘ سے اگر غنا او رموسیقی مراد لی گئی ہے تو یہ عین قرآنی موقف کے مطابق ہے۔اس میں کوئی شک اور اختلاف کی گنجائش نہیں کہ شعروشاعری یکساں نہیں ہوتی۔جو اشعار اﷲ تعالیٰ کی توحید،اس کے ذکر،اسلام اور اﷲ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا باعث ہوں وہ محمود ہیں اور جوجھوٹ،تمرد،عشق و فحش گوئی پر مبنی ہوں وہ مذموم ہیں۔ ان آیات کے بعد ہی اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔الآ یہ کی استثنیٰ میں دربار رسالت کے شعراء کو ان اوصاف سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ جس دور میں غامدی صاحب ’’موسیقی‘‘ کے جواز کی راہیں تلاش کر رہے ہیں اور انھیں وہ مباحات فطرت میں شمار
Flag Counter