کرنے کی سعی میں سرگرداں ہیں اس کے ’’موسیقار‘‘ دربار رسالت کے شعراء سے کچھ بھی مماثلت رکھتے ہیں ؟ بلکہ وہ تو آج وہی کردار ادا کر رہے ہیں جس کی نشاندہی مولانا اصلاحی نے کی ہے۔ جہاں بدی کا دور دورہ ہو۔ فحاشی،بے حیائی اور عریانی کی سرپرستی حکومت اپنا فریضہ بنا لے۔ اور اپنے آپ کو ’’لبرل‘‘ ثابت کرنے کے لیے سارے جتن اختیار کر رہی ہو۔ ان حالات میں ’’موسیقی‘‘ کے جواز کی کوشش بقول مولانا اصلاحی ’’بدی کو مرغوب بنانے اور اس کے نقوش دلوں پر قائم کرنے کی ‘‘دانستہ یا نادانستہ کوشش نہیں تو اور کیا ہے ؟
اس ضروری وضاحت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس آیت میں ’’زُور‘‘ سے غنا اور موسیقی مراد لینا قرآنی تعلیمات کے بالکل مطابق ہے اور امام مجاہد رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ نے جو سمجھا وہ بالکل درست ہے۔ اور یہ آیت بھی موسیقی کی شناعت اور حرمت کی دلیل ہے۔
---٭٭٭---
|