تھے کہ ہر گھنٹی کے ساتھ شیطان ہے۔ [ابوداؤد مع العون : ۴/۱۴۸] یہ دونوں روایات سند کے اعتبار سے کمزور ہیں تاہم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت سے ان کی تائید ہوتی ہے۔ ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گھنٹی اور گھنگرو شیطان کا ساز ہے اور جہاں بھی ان کا استعمال ہو وہاں اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ یہ قافلے میں جانوروں کے گلے میں ہوں یا کسی انسان کے گلے یا پاؤں میں ہوں ان کا استعمال بہرحال ناجائز ہے۔ غامدی صاحب کی کج فکری مگر غامدی صاحب اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیا رنہیں اور یہ محض اس لیے کہ گھنٹی کو عرب میں آلات موسیقی میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب جر س (گھنٹی) کو بالعموم آلات موسیقی میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ المفصل فی تاریخ العرب میں ڈاکٹر جواد علی نے آلات طرب کے زیر عنوان جلجل یا جرس کو ذکر نہیں کیا۔ [اشراق :ص ۷۹] چلیے! ہم لمحہ بھر کے لیے تسلیم کرتے ہیں کہ ڈاکٹر جواد علی نے جرس یا جلجل (گھنٹی یا گھنگرو) کو آلات موسیقی میں شمار نہیں کیا لیکن کیا عرب میں آلات موسیقی بس وہی تھے جنھیں موصوف نے ذکر کیا اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم ان سے ہٹ کر مزید کسی کو آلات موسیقی میں شمار کرنے اور ا س کی ممانعت کے مجاز نہ تھے؟ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے گھنٹی کو شیطان کا ساز قرار دیا۔ تو اس کے بعد امتی کے لیے اس کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ یہ تلاش کرے کہ عرب میں یہ آلات موسیقی میں شمار ہوتا تھا یا نہیں۔ حیرت ہے کہ موصوف خود فرماتے ہیں : ’’گھنگرو کاٹ دینے کے حکم کے بارے میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انھیں چونکہ پیشہ ور مغنیات استعمال کرتی تھیں اس لیے سیدہ (عائشہ) نے ان سے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔‘‘[اشراق :ص ۸۷] |