Maktaba Wahhabi

62 - 131
قول کے مطابق ان سے مراد مزامیر(ساز) ہیں،ضحاک رحمہ اللہ اس کی تعبیر شرک کے مفہوم سے کرتے ہیں اور قتادہ رحمہ اللہ نے اس کے معنی باطل بات کے لیے ہیں۔ [اشراق : ص ۵۷] مگر موسیقی مزاج ہونے کی بنا پر فرماتے ہیں کہ زیادہ تر مفسرین نے ان الفاظ کا مفہوم غنا کے پہلو سے بیان نہیں کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ،الکشاف،التفسیر الکبیر کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی معارف القرآن،مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ،مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ،اور مولانا مودودی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے: ان علماء میں سے کسی نے بھی اپنی تفسیر میں ان الفاظ کا مصداق طے کرتے ہوئے غنا کی تخصیص نہیں کی،(اس لیے) ان الفاظ کی بنا پر قرآن مجید کے حوالے سے حرمت ِغنا کی تعین ہرگز درست نہیں۔ [اشراق : ص ۵۹] ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ قرآن پاک میں عمومی لفظ لہوالحدیث استعمال ہوا ہے اور وہ بھی اس حوالے سے کہ ’’لہو الحدیث خرید کرلاتے ہیں ‘‘۔ لہو الحدیث سے مراد لغۃً بلاشبہ اہم کاموں سے غافل کر دینے والی چیز ہے،کھیل تماشہ ہو،غنا ہواور موسیقی ہو،قصے کہانیاں اور ناول ہوں،فضول اور لایعنی باتیں ہوں بلکہ حق کے مقابلے پر باطل جس پر سر دھن جائے،اس کا مصداق ہیں۔ یہ سب ممنوع اور ناجائز ہیں۔ تفسیری اقوال میں اختلاف تنوع اس نوعیت کے اقوال دراصل اختلاف تنوع ہے،تضاد نہیں۔ ’’صراط مستقیم‘‘ کی طلب اور اس پر قائم رہنے کا جو حکم ہے،اس سے مراد کیا ہے ؟ بعض نے قرآن پاک،بعض نے اسلام،بعض نے اہل السنۃ والجماعۃ،بعض نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مراد لی ہے۔ لیکن یہ اختلاف حقیقی نہیں۔ اسلام قرآن سے جدا نہیں،اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قرآن اور اسلام کی اطاعت ہے۔ اہل سنت بھی قرآن و سنت ہی کے داعی
Flag Counter