Maktaba Wahhabi

61 - 131
مغنیات کی خریدوفروخت نہ کرو اور نہ انھیں (موسیقی) کی تربیت دو،ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں۔ ان کی قیمت لینا حرام ہے۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾۔ مگر یہ روایت ضعیف ہے،کیونکہ عبیداﷲ بن زحر،اس کا استاد علی بن زید،اس کا پھر استاد قاسم بن عبدالرحمن تینوں مسلسل ضعیف ہیں۔ اسی موضوع کی ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے مگر سنداً وہ بھی کمزور ہے۔ مرفوع حدیث صحیح نہ ہو تب بھی وہ تفسیر راجح ہے،جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا،جن کے سامنے قرآن پاک نازل ہوا۔ وہی اس کے اولین مخاطب ہیں۔ تابعین اور اکثر مفسرین کی آراء بھی ان کی مؤید ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وفی الجملۃ من عدل عن مذاہب الصحابۃ والتابعین وتفسیرھم الی ما یخالف ذٰلک کان مخطئًا فی ذٰلک بل مبتدعا و ان کان مجتھداً مغفوراً لہ خطؤہ۔ [مقدمۃ فی اصول التفسیر : ص ۹۱] خلاصہ کلام یہ ہے کہ جوصحابہ و تابعین کے مسلک اور ان کی تفسیر کی مخالفت کرتا ہے وہ غلطی پر ہے،بلکہ بدعتی ہے۔ اور اگر وہ مجتہد ہے تواس کی خطا معاف ہے۔ اس لیے کسی آیت کا جو مفہوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ نے سمجھا وہی راجح اور درست ہے کہ اس آیت میں لہو الحدیث سے مراد غنا اور آلات ملاہی ہیں۔ سلف کی اس تفسیر کے حوالے سے اس حقیقت کا اعتراف تو غامدی صاحب نے بھی کیا ہے کہ: تفسیری اقوال کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ان الفاظ سے مراد غنا ہے۔ ان کے علاوہ جابر رضی اللہ عنہ ،عکرمہ رحمہ اللہ،سعید رحمہ اللہ بن جبیر،مجاہد رحمہ اللہ،مکحول رحمہ اللہ،عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اور علی رحمہ اللہ بن بذیمہ ان الفاظ کا مصداق غنا ہی بیان کرتے ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے
Flag Counter