تفہیم القرآن کا ادھورا حوالہ بلاشبہ مولانا مودودی مرحوم نے اس کا ترجمہ ’’کلام دلفریب‘‘ کیا ہے مگر اس کی تفسیر میں جو کچھ انھوں نے فرمایا ہے غامدی صاحب عمداً اس سے انحراف کر رہے ہیں۔ چنانچہ مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اصل الفاظ میں ’’ لہو الحدیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کرکے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بری اور فضول اور بیہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے۔مثلاً گپ،خرافات،ہسنی مذاق،داستانیں،افسانے اور ناول،گانا بجانا اوراسی طرح کی دوسری چیزیں۔ لہوالحدیث خریدنے کا مطلب یہ بھی لیاجا سکتا ہے کہ وہ شخص حق کو چھوڑ کر حدیث باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ موڑ کران باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لیے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں،لیکن یہ مجازی معنی ہیں لیکن حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صرف کرکے بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی دعوت کفار مکہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نضر بن حارث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمھارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچااور سب سے بڑھ کر امانتدار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے،ساحر ہے،شاعر ہے،مجنون ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا؟ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں ؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعروشاعری سے ناواقف ہیں ؟ کیا لوگوں کو جنون کی کیفیت کا علم نہیں ؟ان الزامات میں آخر کون سا الزام محمد (صلی اﷲعلیہ وسلم) پر چسپا ں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کواس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکوگے۔ٹھہرو،اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے |