Maktaba Wahhabi

81 - 131
صوت الشیطان او فعلہ و ما یستحسنہ فواجب التنزہ عنہ۔[ایضًا :۱۰/۲۹۰ ] اس آیت میں مزامیر،غنا اور لہو کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔ اس قول کی بنا پر ’’ان میں سے تیرا جن پر بس چلے ان کو اپنی صوت سے پھسلا لے،اور ان پر اپنے گھوڑے دوڑا لے،مجاہد کے قول کے مطابق،اور جو بھی شیطان کی آواز ہوگی یاشیطانی عمل ہوگا اور جسے وہ اچھا سمجھے اس سے بچنا واجب ہے۔ اور یہی مفہوم عموماً مفسرین نے بیان کیا ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں : ’’ہمارے نزدیک صوت شیطان یعنی شیطان کی آواز کو غنا سے محدود کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔‘‘[اشراق :ص ۶۷ ] ہم کب کہتے ہیں کہ شیطان کی آواز سے صرف غنا اور موسیقی ہی مراد ہے بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ موسیقی صوت ِ شیطان ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ لہٰذا موسیقی کو صوت شیطان سے خارج سمجھنا شیطان کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ ’’موسیقی‘‘ اصلاً لغو نہیں،وہ موسیقی صوت شیطان ہے جو پروردگار سے سرکشی کا سبب بنتی ہے۔[اشراق :ص ۶۸ ] بڑا پرفریب دعویٰ ہے۔ پہلے دلائل سے گزر چکا ہے کہ لہو الحدیث سے مراد موسیقی ہے۔ لہٰذا وہ بہرحال لغو ہے۔ اگر یہ صوت الشیطان نہیں تو کیا معاذاﷲ یہ صوت الرحمن ہے؟ موسیقی،ایک باقاعدہ فن ہے یعنی گانے بجانے کا علم،راگ کا علم اور موسیقار،گانے والے اور گویے کو کہتے ہیں جسے عربی میں مغنی یا مغنیہ کہا جاتا ہے۔ سادہ طریقہ پر حسن صوت سے اچھے اور بامقصد شعر پڑھنا،اصطلاحاً غنا او رموسیقی نہیں۔ چوتھی آیت اﷲسبحانہ و تعالیٰ نے عبادالرحمن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَط وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا﴾[الفرقان:۷۵ ] اور وہ لوگ کسی زُوْر میں شریک نہیں ہوتے۔ اور اگر کسی لغو پر ان کا گزر ہوتا ہے تو وقار
Flag Counter