اور خاموشی خاص مواقع پر صرف بیان جواز کے لیے ہیں،اس سے عمومی طو رپر رقص و سرود کی محفلوں اور گلوکاروں کی موسیقی اور گانوں کو سند جواز دینا قطعاً درست نہیں۔ خوش الحانی کی تحسین حسن و خوبصورتی جہاں بھی ہو بھلی معلوم ہوتی ہے اور ہر سلیم الفطرت انسان اس کی تحسین کرتا ہے،بشرطیکہ اس میں حرمت کا پہلو نہ ہو۔ یہ خوش الحانی قرآن پاک پڑھنے میں مطلوب ہے،رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھنے کی تحسین فرمائی ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ زَیِّنُوْا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ’’ اپنی آوازوں سے قرآن کی تزیین کرؤ‘ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ فَلَیْسَ مِنَّا۔[بخاری] جو کوئی قرآن کو اونچی اور خوبصورت آواز سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔ گویا قرآن پاک انگریزی قانون کی کتاب نہیں کہ اس کا محض خاموشی سے مطالعہ کیا جائے بلکہ یہ پڑھنے کی کتاب ہے،اسے خوبصورتی سے پڑھو،یہاں ’’یتغن‘‘ کے معنی غنا اور گانے کے نہیں بلکہ حسن صوت کے ہیں۔ جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:[المغنی ۱۰/۱۶۱] امام شافعی رحمہ اللہ،ابن ابی ملیکہ،عبداﷲ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ انما ھو تحسین الصوت اس سے مراد آواز کی خوبصورتی ہے۔ [فتح الباری ۹/۷۰] علامہ ابن منظور نے امام ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ عرب سفر کے دوران عادتاً سفری گانے گاتے،اپنی محفلوں اور مجلسوں میں بھی گنگناتے مگر نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس کی بجائے قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم فرمایا: [لسان العرب ۱۹/۳۷۳] یہی قول علامہ زبیدی نے تاج العروس [ ۱۰/۲۷۲] میں بھی نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے فتح الباری [ ۹/۷۰] میں اسی کو ’’قول ِحسن ‘‘ قرار دیا ہے۔ گویا رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے غنا اور گانے کی بجائے قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھنے اور اس کو اپنی عادت بنانے کا حکم فرمایا ہے۔ یوں اس روایت سے گانے کی |