سے خبردار فرمایاہے تو یہ آپ کے منصب کے عین مطابق ہے۔ اس میں کوئی استحالہ نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت جسے ہم پہلے نقل کر آئے ہیں،اسی اسلوب کی مؤید ہے۔ غامدی صاحب کی ایک اور بے خبری یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ غامدی صاحب ترمذی کی روایت جسے وہ قرین قیاس سمجھتے ہیں،کے بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ گویا یہ مختصر ترمذی کی روایت تو حسن ہے مگر بیہقی وغیرہ کی مکمل روایت حسن نہیں۔(سبحان اﷲ) اور یہ محض اس لیے کہ صحیح سنن الترمذی میں انھوں نے اسے حسن کہا ہے۔ حالانکہ یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے اسلوب سے بے خبری کی بات ہے۔ سنن ترمذی ہو یا ابوداؤد یا نسائی اور ابن ماجہ ان میں ان کا حکم صرف اسی سند کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے دیگر طرق اور شواہد کی بنا پر ہوتا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :یعنی لغیرہ لحال ابن ابی لیلی یعنی یہ حسن لغیرہ ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کی وجہ سے۔ [تحریم آلات الطرب ص ۵۳ ]گویا انھوں نے شواہد کی بنا پر اسے حسن کہا ہے۔ یوں نہیں کہ انھوں نے محمد رحمہ اللہ بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی روایت کو فی نفسہٖ حسن قرار دیا ہے۔ اور نہ ہی وہ ترمذی اور بیہقی کی روایت میں کسی ایسے فرق کے قائل ہیں جو غامدی صاحب نے روا رکھا ہے۔ بلکہ انھوں نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ ورواہ الترمذی عن جابر مختصرا امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مختصراً روایت کیا ہے۔ [تحریم آلات الطرب ص ۵۳ ] اس لیے اگر یہ روایت علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک حسن ہے تو وہ اپنے مکمل الفاظ سے حسن ہے۔ یوں نہیں کہ صرف ترمذی کی مختصر روایت ہی حسن ہے،جیسا کہ غامدی صاحب ان کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی سعی نامشکور کر رہے ہیں۔ اس روایت میں نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے خوشی کے موقع پر لہو ولعب اور آلات ملاہی کو احمقانہ اور فاجرانہ آواز قرار دیاہے۔ اگر یہ عمل جائز ہوتا تو آپ اسے قطعاً احمق اور فاجر وفاسق سے تعبیر نہ فرماتے۔ بلکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ صحیح روایت میں اسے ملعون آواز قرار دیا |