حرمت موسیقی کے دلائل
سابقہ صفحات میں موسیقی اور آلات موسیقی کے جواز کے دلائل پر تبصرہ کے بعدآئیے یہ دیکھتے ہیں کہ موسیقی کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں کیا حکم ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ سلف نے قرآن و سنت کی نصوص کی بنا پر کیا فیصلہ فرمایا ہے؟ ان نصوص سے پہلوتہی اختیار کرنے کے لیے جناب غامدی صاحب اور ارباب اشراق نے کیا شگوفے چھوڑے ہیں اور کن تاویلات کا سہارا لیا ہے۔ ان سطور میں اس مسئلہ کی اسی حیثیت سے وضاحت مطلوب ہے۔
قرآن او رحرمت موسیقی
پہلی آیت
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ ء لقمان کی ابتدامیں پہلے ان سعادت مندوں کا ذکرفرمایا جو قرآن پاک سے راہ یاب ہوتے ہیں۔ ان کا عقیدہ وعمل یہ ہے کہ وہ قیامت پریقین رکھتے ہیں،نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ انہی صفات کے حاملیں فوزوفلاح پانے والے ہیں۔
ان کے مقابلے میں اور ان کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب بھی ہیں جو قرآن پاک سے ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے ان کے طرز عمل اور ان کی تگ دو کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے:
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾
[لقمان :۶]
ان میں سے کوئی ایک’’ لہوالحدیث‘‘ خریدتا ہے تاکہ لوگوں کو اﷲ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے۔
’’لہؤ‘ کے لغوی معنی کھیل تماشے اور اہم کاموں سے غافل کر دینے والی چیز ہے۔ جیسا
|