Maktaba Wahhabi

77 - 131
وقت قاضی ثناء اﷲ رحمہ اللہ پانی پتی فرماتے ہیں : قالت الفقہاء الغناء حرام بھذہ الٓایۃ لکونہ لہوالحدیث و بما ذکرنا من الاحادیث۔ [ تفسیر مظہری:۷/۴۴۸ ] فقہاء نے اسی آیت اور ان احادیث کی بنا پر جنھیں ہم نے ذکر کیا ہے غنا کو حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ غنا لہو الحدیث ہے اور غامدی صاحب نے اس حوالے سے جو دفاعی پوزیشن اختیار کی ہے وہ تارِ عنکبوت سے بھی کمزور ہے۔ دوسری آیت حضرات فقہاءِ کرام نے حرمت موسیقی پر جن آیات و احادیث سے استدلال کیا ہے ان میں دوسری آیت حسب ذیل ہے: ﴿ اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ Oوَ تَضْحَکُوْنَ وَ لَا تَبْکُوْنَ O وَاَنْتُمْ سَامِدُوْنَ﴾ [ النجم:۵۹۔۶۱ ] کیا تم اس کلام پر تعجب کرتے ہو،ہنستے ہو،روتے نہیں ہو،اور تم سامد ہو؟ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ علمائے کرام نے اس آیت سے بھی موسیقی کی ممانعت پر استدلال کیا ہے۔کیونکہ ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حمیری زبان میں غنا کو سمود کہتے ہیں۔ [ جامع الاحکام:۱۷/۱۲۳،۱۴/۵۱ ] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی تفسیر [ ج ۴ ص ۳۳۲ ] میں یہ قول ذکر کیاہے اور ’’قَینہ‘‘ کو کہا جاتا ہے کہ اسمدینا ای الھینا بالغناء ہمیں غنا سے غافل کر دو۔ سامد،سمد کے معنی تکبر،سراٹھانے،غافل کرنے اور متحیر ہونے کے بھی آتے ہیں۔ ابن الاعرابی فرماتے ہیں السامد اللاھی،السامد الغافل،السامد الساھی،السامد المتکبر السامد القائم السامد المتحیر۔ [ تاج العروس:۲/۳۸۱ ] کہ سامد،لہو ولعب میں مبتلا،غافل،بھولنے والا،متکبر،کھڑا ہونے والا،متحیر کو کہتے ہیں۔ جناب غامدی صاحب نے بھی اس کاا عتراف کیا ہے کہ ’’سامد‘‘ کے معنی لغوی اعتبار سے غنا کے بھی ہیں جیسا کہ انھوں نے ’’لسان العرب‘‘ اور ’’اقرب الموارد‘‘ کے حوالے سے
Flag Counter