نقل کیا ہے۔ اسی طرح زمخشری کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ اہل عرب یہ بھی کہتے ہیں ’’ اسمدی لنا‘‘ یعنی ہمارے لیے گاؤ۔ اس اعتراف کے باوجود لکھتے ہیں : اگرچہ اس لفظ کا ایک معنی غنا بھی نقل ہوا ہے،مگر بیش تر مفسرین نے اس سے یہ مراد نہیں لیا۔ ہمارے نزدیک اگر سیاق کلام کو پیش نظر رکھیں توا س سے غنا کا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا۔[ اشراق:ص ۶۴،۶۵ ] جناب من! یہ بیشتر مفسرین کون ہیں ؟ او ر ان کے اقوال کیا ہیں ؟ خود انھوں نے نقل کیا ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہماسے تین مختلف قول مروی ہیں۔ ایک کے مطابق اس سے مراد لاھون کھیلنے والے،دوسرے کے مطابق اس کے معنی غنا ہے اور تیسر ے کے مطابق تکبر سے سینہ تان کر گزرنا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے مراد غافلون یعنی غافل ہو جانے والے ہیں۔ ضحاک رحمہ اللہ کی رائے میں اس سے مراد لہو ولعب میں مشغول ہونے والے ہیں۔ بحوالہ طبری [ اشراق:ص ۶۴ ] اگر اس اختلاف سے بیشتر مفسرین کے اقوال مراد ہیں تو یہ محض لفظی نزاع ہے۔ لاھون،غافلون،لھوولعب کیا غنا معروف سے خارج ہیں ؟ یہ گویا ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں۔ موسیقی و غنامیں مشغول انسان کھیل تماشے میں بھی مصروف ہے۔ اور یاد الٰہی سے بھی غافل ہے۔ لہٰذا ان اقوال میں معناً کوئی فرق نہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ کا قول بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول ہی کا مؤید ہے کہ مراد غنا ہے۔ البتہ دوسرا قول یہ ہوا کہ اس کے معنی تکبر بھی ہے۔ غامدی صاحب کا یہ فرمانا کہ یہاں ’’غناکا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا‘‘ اس کجی کا نتیجہ ہے جس کی نشاندہی ہم پہلے کر چکے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پہلے اصرار تھا کہ لہو الحدیث کا ترجمہ اور معنی غنا نہیں مگر یہاں سامد کا ترجمہ اور معنی غناہونے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہما کا قول اس معنی کا مؤید ہونے کے باوجود یہ قبول نہیں۔ بلکہ فرمایا جا تا ہے کہ یہ مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا۔لاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ ۔! جنا ب من! یہ مفہوم کیوں مراد نہیں لیا جا سکتا؟ جب کہ مفسرین اور فقہاء تواس کے معنی |