مذمت کا پہلو نکلتا ہے مگر ’’گانے‘‘ کے دیوانے الٹا اس سے بھی گانے کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ حافظ ابن قیم نے بھی فرمایا ہے کہ اس حدیث میں غنا کی ترغیب نہیں بلکہ اس طریقہ پر قرآن پڑھنے کا حکم ہے کہ یہ شوق پور اکرنا ہے تو قرآن پاک کو پڑھ کرپورا کرلو،کوئی اور طریقہ اختیار نہ کرو۔[کشف الغطاء :ص ۲۰۳،۲۰۴] اسی طرح بعض حضرات کو ایک اور روایت کے ظاہری الفاظ سے بھی دھوکا لگا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ الاشعری کی تلاوت سن کر فرمایا : لَقَدْ اُوْتِیْتَ مِزْمَارًا مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاؤدَ [بخاری وغیرہ]کہ اے ابوموسیٰ تجھے تو آلِ داود کے سازوں میں سے ایک ساز دیا گیا ہے۔ روایت میں ’’مزمار ‘‘کا لفظ ہے۔ جس سے ظاہر بینوں اور موسیقی پرستوں کو دھوکا لگا ہے،اسی بنا پر اس کا یہاں معنی ’’ساز‘‘ کیا گیا ہے اور محرف بائبل کے بعض بیانات کی بنیاد پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے بائبل کی تصدیق فرما دی ہے۔جن کے مطابق وہ اﷲ کی حمد و ثنا کے لیے آلات موسیقی استعمال کرتے تھے۔[اشراق :ص ۳۸] بلاشبہ مزمار کے معنی ساز کے ہیں۔ لیکن اس سے مراد یہاں حسن صوت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : والمراد بالمزمار الصوت الحسن واصلہ الالۃ اطلق اسمہ علی الصوت للمشابھۃ۔ [فتح الباری :۹/۹۳] مزمار سے مراد حسن صوت ہے۔ مزمار آلہ ہے،اس کا آواز پر اطلاق اس کی خوبصورتی کی مشابہت کی بنا پر ہے۔ یہی معنی علامہ عینی رحمۃ اﷲعلیہ نے عمدۃ القاری [ج ۲۰ ص ۵۶] میں اور دیگر شارحین نے بیا ن کیے ہیں۔ یوں نہیں کہ حضرت ابوموسیٰ’’مزمار‘‘ بجاتے اور قرآن پڑھتے تھے یا حضرت داؤدعلیہ السلام اﷲ تعالیٰ کی حمد وثنا کے گیت آلات موسیقی پر گاتے تھے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت داود علیہ السلام کی اسی صفت کے بارے میں لکھا ہے: وذلک لطیب صوتہ بتلاوۃ کتابہ الزبور وکان إذا ترنم بہ تقف الطیر |