فی الھواء۔الخ [ابن کثیر :۳/۲۵۲،الانبیاء :۷۹] حضرت داود ں کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردینا ان کی اچھی آواز کے ساتھ زبور کی تلاوت کرنے کی بنا پر تھا۔ جب وہ ترنم سے پڑھتے تو پرندے ہوا میں رک جاتے۔ یہی معنی عموماً حضرات مفسرین نے کیے ہیں۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’حضرت داود جب اﷲ کی حمد وثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے۔ پرندے ٹھہر جاتے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکرآیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو غیرمعمولی طو رپر خوش آواز بزرگ تھے۔ قرآن کی تلاوت کرر ہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے توان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا: لَقَدْ اُوْتِیَ مِزْمَارًا مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاؤدَ یعنی اس شخص کو داو،دکی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ے۔ مزمار کے معنی یہاں ’’ساز‘‘ کرنا او ر اسے آلات موسیقی کے ساتھ تسبیح و تحمید اور زبور پڑھنے کے طو رپر ذکر کرنے کے تو یہ معنی بھی ہوئے کہ معاذاﷲ قرآن مجید کی تلاوت اور تسبیح و تحمید کے وقت آلات موسیقی کا اہتمام ہونا چاہیے ممکن ہے مستقبل قریب میں اسی بنا پر ارباب اشراق اس کا فتویٰ بھی صادر فرما دیں۔ کیونکہ ان کے استدلال کا پہلو یہ ہے کہ : ۱۔آپ نے خوش الحانی سے تلاوت قرآن کو ساز سے تعبیر کیا۔ ۲۔آپ نے مثبت انداز میں قوم داو،د کے سازوں کا ذکر فرمایا۔[اشراق :ص ۳۷ ] جب امر واقع یہ ہے تو ساز اور آلات موسیقی سے قرآن پڑھنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ حالانکہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : و فی الخلاصۃ من قرأ القرآن علی ضرب الدف والقضیب یکفر،قلت: ویقرب منہ ضرب الدف والقضیب مع ذکر اللّٰہ تعالٰی ونعت المصطفی ا و کذا التصفیق علی الذکر۔ [شرح فقہ الاکبر :ص ۱۶۷ ] |