الخلاصہ میں ہے کہ جو دَف او رلکڑی بجا کر قرآن پڑھتا ہے وہ کافر ہے۔ میں (علی قاری) کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے اور رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی نعت پڑھتے ہوئے دَف اور لکڑی بجانا بھی اس کے قریب ہے۔ اسی طرح ذکر اﷲ پر تالی بجانے کا بھی یہی حکم ہے۔ ’’مزمار‘‘ کے لفظ سے یہ دھوکا اس وقت زائل ہو جاتا ہے جب یہی حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے۔ لَقَدْ اُوْتِیَ اَبُوْمُوْسٰی مِنْ اَصْوَاتِ آلِ دَاؤدَ۔[صحیح الجامع :رقم: ۵۱۲۳ ] ابوموسیٰ کو آل داو،د کی خوش آوازی کا کچھ حصہ ملا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مشرق سے دو آدمی مدینہ طیبہ حاضر ہوئے،انھوں نے وعظ کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے وعظ و خطبہ پربڑے تعجب کا اظہار کیا۔ آنحضر ت ا نے ارشاد فرمایا: اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْراً [بخاری: رقم:۵۷۶۷ ] کہ بعض بیان جادو ہوتا ہے۔ یہاں بھی خوش بیانی اور حسن صوت کو جادو سے تعبیر کیا گیا ہے تو کیا یہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ آپ نے خوش بیانی او ر خوش الحانی کو جادو سے تعبیر کیا اور آپ نے مثبت انداز میں ان کی خوش الحانی کے جادو کا ذکر کیا۔ لہٰذا جادو اور سحر بھی حرام نہیں۔ حالانکہ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ دنوں جگہ صرف خوش الحانی کی تحسین و توصیف ہے۔ مزامیر یا سحر کی نہیں۔ پھر اس خوش الحانی کی تحسین بھی قرآن پڑھنے کے حوالے سے ہے،جس کا کون انکار کرتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے کہ اﷲ تعالیٰ کی یاد ہونی چاہیے تو وہ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔ اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی بڑے خوش الحان تھے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ انھیں بھی قرآن پاک سنانے کا حکم فرماتے۔ وہ قرآن پڑھتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ زارو قطار رونے لگتے۔صحابہ و تابعین قرآن سننے سنانے کا اہتمام کرتے۔ مگر بحث تو گانوں اور پیشہ ورانہ گویوں کے خوش الحانی سے گانے میں |