Maktaba Wahhabi

52 - 131
تھی،دف بجانے والی کا عمل بھی ایک خاص پس منظر میں تھا جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دف بجانے کی اجازت دی،اگر یہ عمل حرام ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے قطعاً برداشت نہ کرتے،تاہم یہ عمل قابل تحسین نہیں،ا س کے ڈانڈے لہو ولعب سے ملتے ہیں،حضرت عمررضی اﷲعنہ کو دیکھ کر لونڈی نے یہ تماشا بند کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ! تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت میں جسے غامدی صاحب نے ’’عید پر موسقی‘‘ کے جواز میں پیش کیا،ا س سے یہ حقیقت بالکل نمایاں ہو جاتی ہے۔ عید کے روز نابالغ بچیوں نے جنگ بعاث کے حوالے سے گانا گایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر تشریف فرما ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت ابوبکر رضی اﷲعنہ گھر آتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹی کو سرزنش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : مِزْمَارُ الشَّیْطَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی ساز کیوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گانے دو،یہ عید کا دن تھا۔ گویا عید کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نے اسے شیطانی ساز کہا،مگر اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں فرمایا۔ حافظ ابن جوزی رحمۃ اﷲ علیہ نقل کرتے ہیں : ھٰذا الحدیث حجتنا لان ابابکر رضی اللّٰہ عنہ سمی بذلک مزمار الشیطان ولم ینکر النبی ا علی ابی بکر رضی اللّٰہ عنہ قولہ[تلبیس ابلیس: ص۲۰۸] یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نے اسے شیطان کا ساز کہا مگر رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تردید نہیں کی۔ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی خاموشی عید کے موقع پر بیان جواز کے لیے تھی،اگر آپ منع فرما دیتے تو عید پر اس قسم کا اظہار ناجائز اور حرام پاتا اور حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ نے گانے کی اصلیت اور حقیقت کی بنا پر اسے شیطانی ساز قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید نہ فرمائی۔ بلکہ اسی طرح آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے بھی گانے والی کے بارے میں فرمایا قَدْ نَفَخَ الشَّیْطَانُ فِیْ مَنْخَرَیْھَا کہ شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔ جیسا کہ پہلے باحوالہ گزر چکا ہے،اس لیے یہ مذمت اس کی اصل حقیقت کی بنا پر ہے
Flag Counter