سکے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : ’’مفسدین نے لوگوں کو قرآن سے دور کرنے اور خرافات میں مشغول کرنے کے لیے لہوو لعب کے جو ذرائع اختیار کیے ہوں گے وہ اس زمانے کے لحاظ سے ظاہر ہے کہ خطبات،کھیل تماشے،موسیقی کی محفلیں،اور مشاعرے ہی ہو سکتے ہیں۔‘‘[ اشراق :ص۶۲] خطبات اور مشاعرے کا ذکر تو محض بروزن بیت آگیا کہ قرآن کے مقابلے میں ان کی فصاحت و بلاغت اور شعروشاعری کو سنتا کون تھا؟ تمام تر مخالفتوں کے باوجود رؤسائے قریش راتوں کوچھپ کررسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم سے قرآن پاک سنتے تھے۔ اس کے مقابلے میں جو آیا یا لایا گیا تو یہی ’’موسیقی کی محفلیں ‘‘ اور یہی ’’کھیل تماشے ’’کی مجلسیں تھیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے۔ انصاف فرمائیے نتیجہ کیا ہوا؟ قرآن پاک میں ﴿ یَشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ﴾ ہے جس کا ترجمہ خود جناب غامدی صاحب نے یہ کیا کہ جو ’’لہو الحدیث خرید کر لاتے ہیں ‘‘ مانا کہ استعارہ کے طو رپر اشتری،یشتری کا لفظ اختیار کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہو اہے،مگر شان نزول کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ نَضْر بن حارِث عراق سے شاہان عجم کے قصے ہی نہیں لونڈیاں بھی خرید کر لایا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک اور روایت میں ہے کہ ﴿ یَشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ﴾ کے معنی ’’شراء المغنیۃ‘‘ گانے والیوں کو خریدنا ہے۔ یہی قول امام مجاہد رحمہ اللہ او رحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ امام مکحول رحمہ اللہ بھی اس سے مراد الجواری الضاربات گانے بجانے والی لونڈیں ہی مراد لیتے ہیں۔[ الدر المنثور :۶/۱۵۹،۱۶۰] لہٰذا یہ خریدا ہوا لہو الحدیث غنا اورمغنیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ سیاق کلام کا یہی تقاضا ہے۔ امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ انہی وجوہ کی بنا پر فرماتے ہیں : و اولی التاویلین عندی بالصواب تاویل من قال معناہ الشراء الذی ھو بالثمن وذلک ان ذلک ھو اظھر معنیہ [ تفسیر طبری :۲۱/۶۱] کہ یَشْتَرِیْ کی دونوں تاویلوں میں سے میرے نزدیک اقرب الی الصواب وہ تاویل |