جب تابعین کرام کے تفسیری اقوال مختلف ہوں تو وہ حجت نہیں مگر’’ اذا اجمعوا علی الشیء فلا یرتاب فی کونہ حجۃ ‘‘ جب وہ ایک قول پر متفق ہوں تو بلاریب ان کا قول حجت ہے۔ [ ابن کثیر :۱/۲۱] لہو الحدیث کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے غنا اور موسیقی کا جو قول منقول ہے وہی موقف اکثر تابعین کرام کا ہے۔ مگر غامدی صاحب کے نزدیک وہ درست نہیں۔ حضرات صحابہ کرام کا تفسیر کے حوالے سے جو احتیاط تھا وہ کسی صاحب ِعلم سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم سے سن رکھا تھا: مَنْ قَالَ فِی الْقُرْاٰنِ بِرَأیِہٖ أوْ بِمَا لَا یَعْلَمُ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ‘ مِنَ النَّارِ کہ جو قرآن میں اپنی رائے یا بلاعلم بات کرے وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنائے [ ترمذی،نسائی وغیرہ]اسی بنا پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے،مجھے کون سی زمین اٹھائے گی اور کون سا آسمان سایہ کرے گا۔ اگر میں اﷲ کی کتاب میں بے علمی سے کچھ کہوں۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے آیت کے بارے میں استفسار کیا تو وہ خاموش رہے،کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت ابن ابی ملیکہ (اپنے مخاطبین سے ) فرماتے ہیں کہ اگر تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جاتا تو تم ضرور کچھ کہتے۔[ ابن کثیر :۱/۲۲] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تفسیر کے حوالے سے احتیاط کا یہ عالم،ادھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ تین بار قسم اٹھا کرکہ مجھے اﷲکی قسم ! لہو الحدیث سے مراد غنا ہے۔ یہی بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمائیں مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں :’’غنا کی یہ تعیین درست نہیں۔ تف ہے ایسے علم پر،تاسف ہے ایسی عقل و دانش پر،صدحیف کہ غامدی صاحب فرماتے ہیں : ’’اس کا مفہوم اگر عربی لغت،عرف قرآن اور سیاق کلام کی روشنی میں سمجھا جائے تو اس سے مراد گمراہ کن باتیں قرار پائیں گی۔‘‘[ اشراق :ص۶۲] سوال یہ ہے کہ وہ ’’گمراہ کن باتیں ‘‘کیا تھیں جو دشمنان دین نے اختیار کیں ؟ صحابہ کرام رضی اﷲعنہم نے تو وضاحت فرما دی کہ وہ موسیقی تھی۔ کیا وہ عربی لغت اور سیاق کلام سے بے بہرا تھے؟اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف دبی زبان سے کیے بغیر وہ بھی نہ رہ |