Maktaba Wahhabi

71 - 131
جس کے مطالب و مفاہیم انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم سے سیکھے وہی اس کے اولین مخاطب تھے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ قرآن کا جو مفہوم انھوں نے سمجھا وہ تو درست نہ ہو اور جو غامدی صاحب بیان فرمائیں وہ درست اور راجح قرار پائے۔ایں چہ بوالعجبی است! دراصل مبتدعین اور اہل زیغ و ضلالت کا ہر دور میں یہ طریقہء واردات رہا ہے کہ حدیث پاک،صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ہٹ کر قرآن پاک کے الفاظ کی تعبیر کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین عظام رحمہ اللہ کی تفسیر سے بے نیاز ہو کر جو تفسیر کرتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک بدعتی کے جواب میں لکھا تھا: وَلَئِنْ قُلْتُمْ لِمَ اَنْزَلَ اللّٰہُ اٰیَۃَ کَذَا وَ لِمَ قَالَ کَذَا لَقَدْ قَرَؤُوْا مِنْہُ مَا قَرَأْتُمْ وَعَلِمُوْا مِنْ تَاْوِیْلِہٖ مَا جَھِلْتُمْ وَ قَالُوْا بَعْدَ ذٰلِکَ کَلِّہٖ بِکِتَابٍ وَقَدْرٍ۔ [ابوداؤد مع العون :۱/ ۳۳۵] اگرتم یہ کہو کہ اﷲ نے فلاں آیت کیوں نازل کی اور ایسا اﷲ تعالیٰ نے کیوں فرمایا (جو تقدیر کے بظاہر خلاف ہے) بلاریب صحابہ کرام نے قرآن پڑھا ہے جو تم پڑھتے ہو اور انھوں نے اس کی تعبیر و تاویل کو سمجھا ہے جس سے تم جاہل ہو۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے مسئلہ تقدیر کو تسلیم کیا ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ تابعین کی تفسیر کے حوالے سے تو فرماتے ہیں : اقوال التابعین فی الفروع لیست حجۃ فکیف تکون حجۃ فی التفسیر۔ کہ تابعین کرام کے اقوال جب فروعی مسائل میں حجت نہیں تو تفسیر میں کیونکر حجت ہو سکتے ہیں۔ غور فرمائیے! یہ بات تابعین کی تفسیرکے بارے میں توا نھوں نے کہہ دی مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر کے بارے میں اس قسم کا تبصرہ کسی سے منقول نہیں۔ مگر غامدی صاحب ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔! حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعدفرمایا ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ
Flag Counter