Maktaba Wahhabi

126 - 131
الولید بن مسلم نا سعید بن عبدالعزیز عن سلیمان بن موسٰی عن نافع۔ ولید رحمہ اللہ بن مسلم کا متابع امام ابومسہر رحمہ اللہ عبدالاعلیٰ بن مسہر الدمشقی ہیں۔ [بیہقی:۱۰/۲۲۲] اور وہ ثقہ ہیں۔ سعید رحمہ اللہ بن عبدالعزیز کا متابع مخلد رحمہ اللہ بن یزید ہیں [مسنداحمد:۲/۳۸]اور وہ صدوق ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ کے استاد ہیں۔ سلیمان رحمہ اللہ کا متابع میمون رحمہ اللہ اور مطعم رحمہ اللہ بن المقدام خود امام ابوداو،د وغیرہ نے ذکر کیے ہیں۔ اس لیے جب سند میں تفرد بھی نہیں تو اس روایت کو منکر کہنا محل نظر ہے۔ جیسا کہ شارح السنن محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی امام الخلال رحمہ اللہ کی ’’الجامع‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ : انھوں نے اسے دو سندوں سے روایت کیا ہے۔[المغنی:۱۲/۴۰] اس لیے سند میں قطعاً تفرد نہیں۔ یہ روایت بھی بانسری کی ناپسندیدگی اور حرمت پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے سن کر اپنا راستہ بدل لیا۔ کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور یہی کچھ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قال الاذرعی بھذا الحدیث استدل اصحابنا علی تحریم المزامیر و علیہ بنوا الشبابۃ۔[الزواجر:۲/۳۴۳] علامہ اذرعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے ہمارے علماء نے مزامیر کی حرمت پر استدلال کیا ہے اور اسی پر بانسری کی بنا رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ سماع اور استماع میں فرق ہے۔ بلاقصد و ارادہ کسی آواز کا کان میں پڑنا سماع ہے اور اس کا حکم وہ نہیں جو استماع کا۔ یعنی نیت وارادہ سے کسی آواز کے سننے کا ہے۔ راہ چلتے ہوئے قرآن پڑھنے والے کی آواز کان میں پرتی ہے وہ آیت سجدہ کی تلاوت کرتا ہے تو اس راہی پر سجدہ تلاوت لازم نہیں۔ پڑوس سے آلات ملاہی کی آواز کانوں میں پڑتی ہے اس کے لیے اس کا روکنا ممکن نہیں تو بلا قصدوارادہ اس کے سننے والا گنہگا ر نہیں۔ کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر قصد وارادہ سے سنتا ہے تو گناہگار ہے۔ا گر نیت اور ارادہ سے نہیں بلکہ طبعاً کانوں میں آواز آتی ہے تواس سے وہ گناہگار نہیں ہوگا،نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے بھی بانسری کی آواز کانوں میں پڑنے سے
Flag Counter