Maktaba Wahhabi

127 - 131
ہی راستہ بدل لیا اور کانوں میں انگلیاں لے لیں۔ یہ نہیں کہ آپ معاذاﷲ قصد وارادہ سے اسے سن رہے تھے،ظاہر ہے کہ آپ نے ایسا اس سے نفرت اور کراہت کی بنا پر کیا جس سے اس کی شناعت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس غامدی صاحب اور ان کے پیش رو حضرات نے جو اس پر حرف گیری کی وہ اس اصل حقیقت سے اغماض کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ : (۱) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خود کان بند کر لیے،اپنے ہمراہی کو کان بند کرنے کے لیے نہیں کہا۔ (۲) بلکہ عملاً انھوں نے نافع رحمہ اللہ کو اس پر مامور کر دیا کہ وہ بانسری کی آواز سنتے رہیں اور بند ہونے پر انھیں آگاہ کریں۔ (۳) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس موقع پر بانسری کی حرمت یا کراہت کے حوالے سے کوئی لفظ نہیں کہا۔ (۴)انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے اپنا ایک مشاہدہ نقل کیا۔ اس حوالے سے آپ سے نہ کراہت کا تاثر بیان کیا،نہ حرمت و شناعت کا کوئی جملہ ہی آپ سے منسوب کیا۔ (۵)اس امکان کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ کی پیروی میں اظہار کراہت ہی کے لیے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوں لیکن اس سے حرمت کا یقینی حکم اخذ کرنا درست نہیں۔ حالانکہ اگر موصوف غور وتدبر سے کام لیتے تواس قسم کے لایعنی احتمالات کی الجھن سے بچ جاتے۔ مگریہ توان کا مقصد ہے ہی نہیں۔کاش وہ غور فرماتے کہ جس عمل کو وہ ’’مباحات فطرت‘‘ میں شمار کرتے ہیں آخر اس فطرت کے برعکس رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت عبداﷲ بن عمر’’کراہت‘‘ کا اظہار کیوں فرما رہے ہیں۔ ان کے ہاں ’’حرمت‘‘ نہ سہی کراہت ہی کو تسلیم کیا ہے تو بھی یہ عمل ’’فطرت‘‘ سے خارج ا ور ناجائز ہے۔ غامدی صاحب کی ہوشیاری یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں تو کہہ دیا کہ
Flag Counter