انھوں نے کان بند کرلیے مگر اپنے ہمراہی نافع رحمہ اللہ کو اس کا حکم نہ دیا۔ جبکہ حافظ ابن حزم نے یہ کہا تھا کہ اگر یہ حرام ہوتا تو رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے مباح قرار نہ دیتے اور نہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی نافع رحمہ اللہ کے لیے سننے کی اجازت دیتے،حالانکہ سماع اور استماع میں جو فر ق ہے اسے ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ آپ ا کا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا نافع رحمہ اللہ کو اجازت دینا ایجاد بندہ ہے۔حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ آواز سنتے رہے ان کی زندگی بھر کے عمل کے منافی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے آثار کی تابعداری میں ان کی وارفتگی معروف ہے۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ آپ کے انتقال کے بعد تو کہا جائے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ’’آپ کی پیروی‘‘ میں کان بند کر لیے مگر اپنی آنکھوں سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہے تھے تو وہ بانسری کی آواز سننے میں مصروف تھے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔!حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اسی طرز عمل کی بنا پر غامدی صاحب نے حافظ ابن حزم کے اعتراض کے صرف اسی حصہ کو سامنے رکھا کہ ’’انھوں نے اپنے ہمرا ہی کو کان بند کرنے کے لیے نہیں کہا۔‘‘حالانکہ اس میں یہ با ت کہاں سے در آئی کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ بانسری کی آواز باقاعدہ سنتے رہے اور انھوں نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کان بند کرتے دیکھ کر اپنے کان بند نہیں کیے تھے۔ ۲۔غامدی صاحب نے بڑی جسارت سے بلاثبوت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور نافع رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب کردی کہ انھوں نے نافع رحمہ اللہ کو مامور کیا کہ وہ بانسری کی آواز سنتے رہیں۔ ھل تسمع سے یہ ’’مامور‘‘ کا حکم کہاں سے نکل آیا؟ علامہ اذرعی رحمہ اللہ نے اسی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کے معنی ہیں : ھل تسمع معناہ تسمع،ھل تسمع؟ ’’ سنو کیا تم آواز سن رہے ہو۔ [الزواجر:۲/۳۴۴]گویا حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے سننے کی وقتی اجازت تھی۔ یوں نہیں کہ انھوں نے سننے پر مامور کر رکھا تھا اور وہ مسلسل سنتے جا رہے تھے۔ علاوہ ازیں یہ بھی بتلایا جائے کہ حضرت نافع رحمہ اللہ اس وقت سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے؟ یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہ ابھی بالغ نہ ہوں۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے: یمکن انہ اذ ذاک لم یبلغ الحلم ممکن ہے کہ نافع ا رحمہ اللہ بھی |