Maktaba Wahhabi

129 - 131
حدبلوغت کو ہی نہ پہنچیں ہوں۔[عون:۴/۴۳۴]اس لیے مکلف نہ سمجھتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سننے کی اجازت دی ہو۔ لہٰذا جب یہ احتمال بھی ہے تو ان کا سننا جواز کی دلیل کیونکر بن سکتا ہے؟ ۳۔یہ بات بھی عجیب ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بانسری کی کراہت یا حرمت کے حوالے سے کوئی لفظ نہیں کہا۔ حیرت ہے کہ یہی بات حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے رسو ل اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے بارے میں کہی کہ اگر اس کا سننا حرام ہوتا تو آپ کان ہی بند نہ کرتے بلکہ اس سے روکتے اور منع بھی فرماتے۔ حالانکہ یہ حضرات خوب جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی اطاعت کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ آپ کی اتباع اور تابعداری کا بھی حکم فرمایا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو ’’اسوہ حسنہ‘‘ قرار دیاہے اور اس کی پیروی میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے محض بانسری کی آواز سننے پر اپنے کان بند کر لیے۔ جب بانسری کی آواز کو انھوں نے طبعاً بلاارادہ سننے پر کان بند کرلیے اور اسے مکروہ اور ناپسند قرار دیا تو بالقصد اس کا سننا اورا س پر سر دھننا حرام ہوگا؟ یا صرف مکروہ ہی رہے گا؟ پھر یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ نافع رحمہ اللہ نے کان بند نہیں کیے تھے اور وہ مسلسل سن رہے تھے۔جب اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں،بلکہ احتمال ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر کان بند کر لیے تھے تو پھر حکم دینے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟ اس کی ضرورت تو تب پیش آتی جب وہ ان کی پیروی میں عمل نہ کرتے۔ بصورت دیگر یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے نافع رحمہ اللہ کو نابالغ ہونے کی وجہ سے اس کا مکلف ہی نہ سمجھا ہو۔ اس لیے اسے منع نہیں فرمایا۔ ۴۔بلاشبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف مشاہدہ ہی نقل کیا۔ آپ نے قولاً اس کی شناعت بیان کی ہوتی تو یقینا وہ اسے بھی بیان کرتے۔وہ چونکہ سچے متبع تھے اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے دیکھا اسی طرح کرکے دکھایا۔ مگر غامدی صاحب کی طبیعت اس قدر اتباع کے لیے تیار نہیں اس لیے مختلف احتمالات سے جان کی امان چاہتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہی ہے۔
Flag Counter