Maktaba Wahhabi

130 - 131
۵۔رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم اور حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے تو اتفاقاً چرواہے کی بانسری کی کان پڑی آواز پر اپنی نفرت اور کراہت کا اظہار فرمایا چہ جائیکہ اسے ماہر فن سے بڑے اہتمام سے سنا جائے۔ اس لیے جس کا بلاارادہ سننا مکروہ ہے اس کا قصداً سننا اور مختلف سُروں سے سن سنا کر سر دھننا حرام کیوں نہیں ؟ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اذا کان ھذا فعلھم فی حق صوت لا یخرج عن الاعتدال فکیف بغناء الزمان وزمورھم۔ [تلبیس ابلیس:ص ۲۰۳] جب غیرمعتدل آواز کے بارے میں ان کا یہ (رد)عمل ہے،تواس دور کے غنا اور ان کی بانسریوں کا کیا حکم ہوگا؟ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے بانسری کی آواز پر کانوں میں انگلیاں ہی نہیں ڈالیں بلکہ آپ جس راستے پر چلے جا رہے تھے اس راستہ کو چھوڑ دیا اور اس سے الگ راستہ اختیار کیا۔ قابل غور یہ بات ہے کہ کانوں کو بند کر لینے کے باوجود آپ نے اور پھر آپ کی تابعداری میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ راستہ کیوں چھوڑا؟ غامدی صاحب اگر اس نکتہ پر ہی غور کر لیتے توان احتمالات کی کمزوری ان پر واضح ہو جاتی جن کا انھوں نے ذکر کیا ہے۔ مسافر اپنا راستہ کسی شدید خطرہ کی بنا پر ہی ترک کرتا ہے اور بلاضرورت اپنے لیے طویل راستہ اختیار نہیں کرتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کان بند کر لینے کے باوجود آپ نے راستہ کیوں چھوڑا،اور اپنے لیے مشقت کیوں برداشت کی؟ اس لیے کہ بانسری ہو،طبل ہو،گھنٹی ہو یا دیگر آلات ملاہی۔ یہ سب شیطانی آلات اور مزمار الشیاطین ہیں۔ جہاں یہ بج رہے ہوں وہاں شیطان کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت وہاں نہیں ہوتی۔ اس لیے آپ نے اپنا وہ راستہ چھوڑا اور آپ کی پیروی میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اپنا راستہ چھوڑا۔ اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ جب آپ مع صحابہ کرام سفر کے دوران سوئے رہے تاآنکہ سورج نکل آیا تو آپ نے اس جگہ کو یہ کہتے ہوئے چھوڑ نے کا حکم فرمایا : فَاِنَّ ھٰذَا مَنْزَلٌ حَضَرَنَا فِیْہِ الشَّیْطَانُ کہ یہاں شیطان آ گیا ہے۔[مسلم وغیرہ فتح الباری:۱/۴۵۰]اس لیے آپ نے اپنا
Flag Counter