چہرہ پیٹنے،گریبان چاک کرنے کی آواز۔ اسی روایت کے بارے میں انھوں نے فرمایا ہے کہ ’’امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے ایک راوی محمد رحمہ اللہ بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو ضعیف کہا ہے۔۔۔ اور ہمارے نزدیک یہ روایت ضعیف ہونے کی وجہ سے لائق استدلال نہیں۔[ اشراق : ص :۱۰۱۔۱۰۲] گویا یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے اس سے استدلال درست نہیں مگر اس کے متصل بعد فرماتے ہیں : ’’البتہ اس کا وہ طریق قابل اعتنا ہے جسے ترمذی نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔‘‘ [ اشراق : ص :۱۰۲] سوال یہ ہے کہ ترمذی کا وہ ’’طریق‘‘ کونسا ہے ؟ جو قابل اعتنا ہے۔ غامدی صاحب نے اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔ جب کہ امر واقع یہ ہے کہ ترمذی میں ’’وہ طریق‘‘ بھی محمد رحمہ اللہ بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ہی کی سند سے ہے۔ چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدثنا علی بن خشرم اخبرنا عیسٰی بن یونس عن ابن ابی لیلٰی عن عطاء عن جابر۔ [ترمذی : رقم :۱۰۰۵ مع التحفۃ ۲/۱۳۶۔۱۳۷] غامدی صاحب نے نصب الرایۃ [۴/۸۴ ] کے حوالے سے،سنن بیہقی،شرح معانی الآثار اور مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ اسکی سند میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہے۔[ اشراق : ص :۱۰۱] حالانکہ علامہ الزیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ میں سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ کی مذکورہ سند نقل کی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ،مسند اسحاق بن راھویہ،مسند عبدبن حمید،مسند ابوداو،دطیالسی،بیہقی،بزار،ابویعلی اور مستدرک حاکم میں بھی محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے ہے۔ بددیانتی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے کہ ترمذی کی سند پیش نظر ہوتے ہوئے اور علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی اس پر تفصیلی بحث زیر نظر ہونے کے باوجود ترمذی کی سند قابل اعتناء قرار پائے بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح الترمذی [ ج: ۱ ص : ۵۱۳ ] کے حوالہ سے اسے ’’حسن ‘‘ تسلیم کیا جائے۔ حالانکہ ترمذی کی سند میں بھی محمد رحمہ اللہ بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ہے۔ اگربیہقی،شرح معانی الآثار |