اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقص کر رہے تھے اور اس کو علماء نے ناچنے والے کی صورت میں اسلحے کے ساتھ اچھلنے اور برچھیوں کے ساتھ کھیلنے پر محمول کیا ہے۔ اسی طرح امام المہلب رحمۃ اﷲعلیہ شارح البخاری فرماتے ہیں : المسجد موضع لأمرجماعۃ المسلمین فما کان من الاعمال مما یجمع منفعۃ الدین وأھلہ فھو جائز فی المسجد واللعب بالحرب من تدریب الجوارح علی معانی الحروب وھو من الاشتداد للعدو والقوۃ علی الحرب فھو جائز فی المسجد وغیرہ۔ [اتحاف السادۃ المتقین:۶/۴۹۵،فتح الباری:۱/۵۴۹] مسجدمسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی جگہ ہے۔ لہٰذا جن اعمال میں دین اور مسلمانوں کا فائدہ ہے وہ تو مسجد میں جائز ہیں اور برچھیوں سے کھیلنا لڑائی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے،دشمن سے مقابلے اور لڑائی کے لیے قوت حاصل کرنے کے لیے ہے۔ لہٰذا یہ مسجد اور غیر مسجد میں جائز ہے۔ امام المہلب رحمۃ اﷲعلیہ کی اس وضاحت سے مسجد میں حبشیوں کے کھیلنے اور اس کے جواز کا سبب واضح ہو جاتا ہے اور یہ اس لیے کہ مساجد بہرحال کھیل تماشے کے لیے نہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہی روایت ’’باب اصحاب الحراب فی المسجد ‘‘ میں لا کر اس کے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے۔اسی طرح امام عز الدین رحمہ اللہ ابن عبدالسلام رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے ہیں : ’’سوال یہ ہے کہ حبشیوں کے اس عمل سے تو مسجد میں کھیلنے کودنے کا جواز نکلتا ہے مگر علمائے کرام اسے مکروہ کیوں قرار دیتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حبشیوں کا کھیلنا اسلحے کے ساتھ کھیلنا جہاد پر قوت حاصل کرنے کے لیے مندوب ہے،اس لیے یہ کھیل بھی اس طرح قرب کا ذریعہ بن گیا۔ جس طرح مسجد میں علم حاصل کرنا یا ذکر و تسبیح وغیرہ قرب کا ذریعہ ہیں۔ [الفتح الربانی:۶/۱۶۱] نیز دیکھیے ’’کف الرعاع عن محرمات اللھو والسماع لابن حجر ہیتمی ‘‘[۲/۲۸۳ مع الزواجر] |