مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ۔ [بخاری رقم:۶۷۰۰] جو اﷲ کی اطاعت کی نذر مانے اسے چاہیے کہ وہ نذر پوری کرے بلکہ فقہائے حنفیہ نے تو لکھا ہے کہ نذر صرف اسی عمل کی ہو سکتی ہے جو قربت مقصودہ ہو۔[البدائع،رد المحتار:۳/۷۳۵] جب امر واقع یہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسے نذر پوری کرنے کا فرمایا،یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سالم آمد کی خوشی کی بنا پر تھی۔ علامہ خطابی رحمۃ اﷲعلیہ نے اسی بنا پر فرمایا ہے: ضرب الدف لیس مما یعد من باب الطاعات التی یتعلق بھا النذور وأحسن حالہ ان یکون من باب المباح غیر انہ لما اتصل باظھار الفرح بسلامۃ مقدم رسول اللّٰہ احین قدم المدینۃ من بعض غزواتہ و کانت فیہ مسائۃ الکفار وإرغام المنافقین صار فعلہ کبعض القرب التی من نوافل الطاعات ولھذا أبیح ضرب الدف۔ [معالم السنن:۴/۳۸۲] دَف بجانا ایسا عمل نہیں کہ اسے فرمانبرداری کے ابواب سے شمار کیا جائے جن سے نذر ماننے کا تعلق ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ مباح ہے لیکن جب اس کا تعلق آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی باسلامت واپسی کی خوشی سے ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض سفر سے مدینہ طیبہ پہنچے۔ اس میں کفار کی تکلیف اور منافقین کی توہین تھی تویہ نذر نفلی اطاعت کی طرح قربت کا باعث بن گئی،اسی لیے دَف بجانے کی اجازت دی گئی۔ یہی بات امام بیہقی نے السنن الکبریٰ [ج۱۰ ص ۷۷] میں کہی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری [ج ۱۱ص ۵۸۸] میں بھی نقل کیا ہے۔ اس لیے اس موقع پر دَف بجانے کی اجازت اس خاص پس منظر کی بنا پر ہے۔اسے عمومی حالت پر محمول کرنا اور اس سے ’’فن موسیقی‘‘ کا ثبوت فراہم کرنا یتیمی علم کی دلیل ہے۔ فقہائے کرام ایسے مواقع پر کہا کرتے ہیں کہ ’’ھی حادثۃ لا عموم لہا ‘‘ یہ خاص واقعہ ہے اس کا حکم عمومی نہیں۔ مگر غامدی صاحب کا اس سے کیا تعلق؟ انھیں تو بہرنوع ’’فن موسیقی‘‘ ثابت کرنا ہے۔ وہ ایسے قواعد سے غالباً اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ ورنہ اس سے |