Maktaba Wahhabi

108 - 131
اعمالھن و قد لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء۔ [ شعب الایمان :۴/۲۸۳] ’’کہ دف کا بجانا صرف عورتوں کے لیے حلال ہے کیونکہ یہ انہی کا عمل شمار ہوتا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔‘‘ یعنی مردوں کے لیے دف بجانا حرام اور عورتوں سے مشابہت کی بنا پر لعنت کا باعث ہے۔ اورکسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مرد بھی دف بجاتے تھے۔ عورتیں بھی عموماً وہ جو لونڈیاں ہوتیں،آزاد عورتیں نہیں۔ ثانیاً: اس کا جواز شادی بیاہ اور عید کے موقع پر ہے کسی تیسری صورت میں اس کے استعمال کی اجازت محتاج دلیل ہے۔ ثالثاً: دف کو محض شادی کی خبرگیری کے لیے اور عید پر اظہار خوشی کے طور پر بے تال انداز سے بجایا جاتا اور بجانے والے پیشہ ور مغنی یا مغنیہ نہیں ہوتے تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف تو غامدی صاحب نے کیا ہے کہ ’’اناڑی کا بے تال انداز سے طبلے کا بجانا موسیقی نہیں ہے۔ [ اشراق :ص ۸۰] اس لیے طبل بھی اگر اسی طرح اناڑی بجائے تو اس کی گنجائش موجود،مگر اسے تو موسیقی کی مخصوص سُروں کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔ اس لیے اسے دف پر قیاس کرنا قطعاً غلط ہے۔ بلکہ اگر دف کو بھی موسیقی کے اصولوں پر بجایا جائے تواس کا استعمال بھی حرام ہے۔ حرام اشیاء میں اگر کوئی اجازت اور اباحت کا پہلو ہو تو وہ بقدر ضرورت ہوتا ہے اوراس سے مطلقاً اس کی حلت کا استدلال بغاوت ہے۔ رابعاً: دف کو مطلقاً آلات موسیقی میں شمار کرنا بھی درست نہیں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : یقال لہ ایضاً الکربال،و ھو الذی لا جلاجل فیہ۔[ فتح الباری :۲/۴۴۰] دف کو کربال یعنی چھلنی (جس سے آٹا چھانا جاتا ہے ) بھی کہتے ہیں جس سے گھنگرو بندھے ہوئے نہ ہوں۔ لہٰذا دف تب آلات موسیقی میں شمار ہوگاجب ا سکے ساتھ گھنگرو بندھے ہوئے ہوں۔ اس لیے طبل یا طبلہ کو جو آلات موسیقی کے طور پر بجایا جاتا ہے دف پر قیاس کرنا بہر نوع غلط ہے۔
Flag Counter