کہ یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔کیا یہ ’’حکم‘‘ زمانے کے لحاظ سے تھا یا قیامت تک کی امت کے لیے ہے؟ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَاَ یَلْبَسْ حَرِیْرًا وَّلَا ذَھَبًا۔ [مسند احمد:۵/۲۶۱ ] کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے،وہ ریشم اور سونا نہ پہنے۔ لہٰذا ممانعت کا یہ حکم وقتی یا زمانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ تمام ایماندار مردوں کو ہے۔ اس سے عورتوں کو یا بعض استثنائی صورتوں میں۔ مثلاً بیماری کے لیے،یا دو انگلیوں کے برابر،اجازت خود آپ انے دی ہے۔ انہی استثنائی صورتوں کی بنا پر سمجھنا کہ ریشم کو مطلق طو رپر حرام قرار نہیں دیا گیا۔ خود فریبی اور شریعت سازی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے بڑے تحدید آمیز الفاظ میں فرمایا: مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا لَنْ یَّلْبَسَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ [بخاری:۵۸۳۳ ] کہ جو دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں ریشم نہیں پہنے گا۔ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں : اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا مَنْ لاَّ خَلَاقَ لَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ [بخاری:۵۸۳۵ ] کہ دنیا میں وہ ریشم پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہمااور عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ کہ وہ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ [فتح الباری:۱۰/۲۸۹ ] مگرجناب غامدی صاحب اسے صرف وقتی حکم قرار دیتے ہیں۔ حرمت کی یہ علت فخر و ریا ہویا عورتوں سے مشابہت بہرحال حرام ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے پر لعنت فرمائی۔ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے حرمت کے لفظ سے حرام ہونے کی صراحت فرمائی اور یَسْتَحِلُّوْنَ کے لفظ سے حیلہ گری سے حلال بنانے والوں کی مذمت بھی کی۔ اس لیے اسے ’’حلال بنانے‘‘ کی کوشش اسی حدیث کا مصداق ہے۔ |