Maktaba Wahhabi

77 - 292
’’بیماری کا اجر نہیں لکھا جاتا۔‘‘ ہم پر یہ بات گراں گزری حتیٰ کہ آپ نے خود وضاحت فرمائی: ’’ مگر گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔‘‘ ہمیں ان کی یہ بات بہت پسند آئی۔[1] یہ واقعہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی کمال علمی اور فقاہت کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ اجر یا تو اختیاری عمل پر ملتا ہے۔ جس طرح کہ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے والوں اور وادی طے کرنے والوں کے لیے فرمایا کہ ان کے لیے اجر لکھا جاتا ہے۔ یا جو اس کا نتیجہ ہو، اللہ کے راستے میں پیاس، تکلیف اور بھوک کا پہنچنے اور کفار کو اس پر غصہ آنے پر بھی ان کے لیے اجر لکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ توبہ میں موجود ہے۔ ثواب کا تعلق ان دو ہی چیزوں سے ہے۔ اختیاری عمل ہو یا جو اس کا نتیجہ ہو، البتہ بیماریاں اور تکالیف گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’جو تمھیں مصیبت پہنچتی ہے تمھارے اعمال کی وجہ سے پہنچتی ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’اس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا ہے۔‘‘[2] اطاعت درجات کو بلند کرتی ہے اور مصائب گناہوں کو مٹاتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ جس کے لیے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے آزمائشوں میں ڈال دیتے ہیں۔‘‘[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ جس کے لیے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں۔‘‘[4] یزید بن میسرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بندے کو اللہ تعالیٰ بیمار کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کے مقابلے میں کفارہ بنائے۔ تو اس بندے کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ اپنے خوف کی وجہ سے مکھی کے سر کے برابر آنسو نکال دیتا ہے۔
Flag Counter