Maktaba Wahhabi

288 - 292
وجہ سے سارے مصائب وآلام دورہوجاتے ہیں اور سختیاں کافورہوجاتی ہیں۔ 2۔ صبر کے سلسلہ میں مددگاربننے والے اسباب ووسائل میں سے اس بات کا ایمان وایقان بھی ہے کہ یہ ساری کی ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے یہ اللہ کی مشیت میں ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے نہیں دیتا۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: (وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ ) (النحل: 53) ’’اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ اگر انسان کو آزمائش سے نبردآزمائی کرنا پڑے تو اس موقع پر اسے چاہیے کہ وہ(انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)کا وردکرے۔ کیونکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: (الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) (البقرۃ: 156) ’’وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ‘‘ بلاشبہ بندہ ، اس کے اہل وعیال، اس کا مال و دولت ساری کی ساری اللہ کی ملکیت اور اس کے قبضہ و تصرف میں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عاریت کے طور پر بندے کو اس کا مالک بنایا ہے اور عاریت میں عطا کرنے والے کو اس بات کا اختیارحاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی چیز جب چاہے واپس لے لے۔ سیّدہ ام سلیم رضی اللہ عنھا کو جب اس قضیہ کاادراک ہوگیا توسیّدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا اس بارے میں عجیب وغریب قصہ پیش آیا۔ ہوایہ کہ جب سیّدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے لاڈلے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ آپ کا کیاخیال ہے اس چیز کے بارے میں جوکسی قبیلہ کے لوگوں نے کسی معتبرگھرانے کے لوگوں کے پاس بطور عاریت رکھی ہو اور وہ آکراپنی امانت طلب کریں تو کیا ان لوگوں کو اس بات کا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کی امانت واپس کرنے میں چوں چراسے کام لیں سیّدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نہیں توام سلیم رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ’’ آپ بھی اپنے لڑکے
Flag Counter